محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 22 جولائی 2022ء)

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے حوالے سے ایک مختصر مضمون مکرم محمد سعید احمد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 2013ء کی زینت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب احمدیت کا ایک سایہ دار شجر تھے۔ 1974ء کے فسادات میں سرگودھا میں ایذارسانی کا جو طوفان اُٹھا اُس کے نتیجے میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب جیسے نفع رساں بزرگ کا گھر بھی نذرآتش کردیا گیا۔ آپ بڑے صبر اور وقار سے اس ابتلاء سے گزرے بلکہ بحیثیت امیرجماعت اپنے علاقے کے احمدیوں کے لیے ہمدرد، مددگار اور ڈھال بنے رہے۔ اس موقع پر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے حضرت مرزا صاحب کو تیس ہزار روپے کا چیک ارسال کیا۔
محترم بشیر احمد رفیق خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اگر لندن میں قیام فرما ہوتے تو ہر اتوار کو محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ہاں ناشتہ کے لیے جاتے جہاں ایک پُروقار محفل بھی جاری ہوتی۔ ایک بار حضرت چودھری صاحبؓ نے مجھ سے مشورہ کیا کہ اُن کا ایک برسوں پرانا اوورکوٹ اب عمررسیدہ اور بوسیدہ ہوگیا ہے اس لیے نیا خرید لیا جائے۔ مَیں نے عرض کی کہ بہت مبارک خیال ہے اور یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ حضرت چودھری صاحبؓ جو لاکھوں روپے خدمت خلق میں صرف کرتے تھے، تھوڑے سے توقف کے بعد فرمانے لگے کہ نیا کوٹ خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی؟ لیکن اگلے اتوار کو جب آپؓ محترم ڈاکٹر صاحب کے ہاں تشریف لے گئے تو ڈاکٹر صاحب نے آپؓ کا کوٹ اتارنے میں مدد کرتے ہوئے آپؓ سے درخواست کی کہ یہ اوورکوٹ انہیں بطور تبرک عطا کردیا جائے۔ چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ مَیں کیا پہنوں گا؟ اس پر ڈاکٹر صاحب اندرونِ خانہ گئے اور ایک نیا اعلیٰ قسم کا اوورکوٹ لاکر آپؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔
1962ء میں پشاور میں آل پاکستان سائنس کانفرنس ہوئی۔ محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کوشش کرکے دنیا کے نامور سائنسدانوں کو اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب متعدد بزرگ سائنسدانوں کے ساتھ بذریعہ جہاز پشاور پہنچے تو جماعت احمدیہ پشاور کے ایک وفد نے خاکسار (مضمون نگار) کی قیادت میں ایئرپورٹ پر آپ کا استقبال کیا اور آپ کو پھولوں کے ہار پہنانے چاہے۔ مگر آپ نے سختی سے انکار کردیا کہ مَیں نے ایسا کیا کیا ہے؟ پھر آپ نے ان شہرت یافتہ بزرگ سائنسدانوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاکہ انہیں ہار پہناؤ کیونکہ یہ انسانیت کے خادم اور سائنس کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور محترم ڈاکٹر صاحب ایک طرف کھڑے ہوکر اس منظر سے محظوظ ہوتے رہے۔
اس موقع پر خاکسار نے محترم ڈاکٹر صاحب سے خدام کے ایک اجلاس سے خطاب فرمانے کی درخواست کی تو آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ مَیں اس کا اہل نہیں ہوں، یہ مقام کسی بزرگ اور عالم دین کا ہے۔ چونکہ انکار کی وجہ مصروفیت نہیں تھی اس لیے میرے اصرار پر آپ رضامند تو ہوگئے مگر ایک شرط کے ساتھ کہ آپ کے خطاب میں اگر کوئی بات غیرمولویانہ ہوئی تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ بہرحال آپ نے خدام سے جو خطاب فرمایا اُس میں احمدی نوجوانوں کو بہت محنت کرنے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے، خصوصاً سائنس کے میدان میں دوسروں پر سبقت لے جانے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے کیے گئے وعدوں کو شاندار طور پر پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو اہل بنانے کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ سائنس کے شعبے میں پچانوے فیصد ماہرین یہودی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہر یہودی بچے کو اُس کی ماں کہتی ہے کہ تم اس دنیا میں کیوں آگئے ہو جہاں پہلے ہی کروڑوں انسان بستے ہیں، اور یہودی ہونے کی وجہ سے تم تو نفرتوں کا شکار ہوجاؤگے اور جائز حقوق سے بھی محروم کردیے جاؤگے۔ اگر اس دنیا میں زندہ رہنا اور کامیاب ہونا چاہتے ہو تو پھر ایک ہی صورت ہے کہ جس میدان میں آؤ وہاں دوسروں سے بہت بلند ہوجاؤ۔
محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اسی قسم کی صورت حال احمدی نوجوانوں کو درپیش ہے۔ احمدیت کے مخالفین نے اُن کی ترقی کا ہر دروازہ بند کرنے کی کوشش کی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے ہمارے ساتھ ہیں اور وہ انشاءاللہ ضرور پورے ہوں گے بشرطیکہ ہم اپنے آپ کو ان کا اہل بنائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں