محترم چودھری غلام حسین صاحب

محترم چوہدری غلام حسین صاحب 21؍جنوری 1876ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک میں صوبہ بھرمیں دوم آئے اور وظیفہ حاصل کرکے مشن کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی میں منشی الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ اور اُس کے ایک ساتھی کے مجبور کرنے پر آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک کتاب لکھی جس سے حضورؑ کو بہت تکلیف پہنچی اور حضورؑ نے اس کتاب کو ’’الٰہی بخش کے تیر‘‘ کے نام سے یاد فرمایا۔ اس کے بعد منشی الٰہی بخش اور اُس کا ساتھی تو طاعون سے ہلاک ہو گئے جبکہ آپ کو شدید ہیضہ ہوگیا۔ بعد میں خدا تعالیٰ نے آپ کو شفا عطا فرمائی اور حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں آپ کو قبول احمدیت کی سعادت عطا فرمائی۔
پہلے آپ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے مرید تھے۔ ایک روز بڑے جوش سے مولوی صاحب سے کہنے لگے: ’’دل چاہتا ہے کہ روز روز کا قصہ پاک ہو، اگر آپ اجازت دیں تو قادیان جاؤں اور موقع پاکر مرزا کو قتل کر آؤں…‘‘۔
اس پر مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ’’میاں ! ہم اس کی بھی کوشش کر چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی‘‘۔ بس اسی جواب پر چودھری صاحب کا دل احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو گیا۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں مسجد احمدیہ لاہور میں ایک روز حلقہ احباب میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک چودھری غلام حسین صاحب جو پہلے میرے واقف نہ تھے تشریف لائے۔ میں نے ایک شخص کو بھیج کر دودھ منگوا کر پلایا تو فرمانے لگے کہ کل میں نے حضرت شیخ سعدیؒ کو خواب میں دیکھا تھا کہ انہوں نے مجھے دودھ پلایا ہے۔ آج جب میرا اِدھر سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ بالکل شیخ سعدیؒ کی شکل میں ہیں اور اب آپ نے مجھے دودھ بھی پلایا ہے۔
حضرت چودھری صاحب بڑے دعاگو بزرگ تھے۔ جب آپ ڈیرہ غازیخان میں ملازم تھے تو ایک قریبی بستی ’’رنداں‘‘ کو دریائے سندھ نے کٹاؤ لگانا شروع کر دیا۔ چنانچہ وہاں کے احمدی دوستوں نے گھبراکر آپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تو آپ فوراً اُن کے ساتھ بستی میں تشریف لائے اور دریائے سندھ کے کنارے سجدہ میں چلے گئے۔ آپ کا سجدہ اتنا لمبا ہو گیا کہ وہاں موجود حاضرین فکرمند ہوگئے۔ چنانچہ ملک رسول بخش صاحب آپ کے دل کی دھڑکن سننے کے لئے زمین پر لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ نے سراٹھایا تو اسی وقت سے دریا کا رخ بستی سے دُور ہونا شروع ہو گیا اور آج بھی اس بستی کو دریا برد ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔
ریٹائر منٹ کے بعد محترم چودھری صاحب 1932ء میں قادیان میں رہائش پذیر ہوگئے اور 1947ء میں جھنگ آگئے جہاں 24؍جنوری 1950ء کو وفات پائی۔ آپ کا مختصر ذکر خیر آپ کے بھتیجے محترم عبدالحمید چودھری صاحب (برادر محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب) کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍ اپریل 1996ء کی زینت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں