محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍دسمبر 2022ء)

چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍ستمبر2015ء میں مکرم میر انجم پرویز صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ مضمون نگار کو چار سال تک آپ کے ساتھ وکالتِ تعلیم میں خدمتِ سلسلہ کی توفیق ملی۔

میر انجم پرویز صاحب

محترم چودھری صاحب کے والدین نے آپ کو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وقف کر دیا تھا۔ پھر 1944ء میں جب تحریکِ جدید کے دفتر دوم کا آغاز ہوا اور حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر کو ہدایت فرمائی کہ اساتذہ بھی طلبہ کو وقف کی تحریک کریں،تو آپ نے اپنے زمانۂ طالبعلمی میں ہی وقف کر دیا اور 1949ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک پاس کر نے کے بعد باقاعدہ معاہدہ وقفِ زندگی پُر کیا۔ جس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر تعلیم جاری رکھی۔ 1956ء میں آپ نے میتھ میں ماسٹرز کرلیا تو حضورؓ نے آپ کو نائب وکیل المال ثانی مقرر فرمایا۔ 1958ء کو آپ کو کراچی بھجوا یا گیا جہاں ایک فلور مل لگانے کے لیے آپ کی ڈیوٹی لگائی گئی۔ آپ نے زمین خرید کرعمارت بنوائی اور مشینری نصب کرواکے فلور مل کوجاری کیا۔ اکتوبر 1964ء میں آپ دوبارہ نائب وکیل المال ثانی مقرر ہوئے۔ ازاں بعد 2؍نومبر 1971ء کو وکیل المال ثانی اور 4؍اگست 2001ء کو وکیل التعلیم مقرر ہوئے اور تاوفات اسی خدمت پر مامور رہے۔ آپ اپنے نام کے ساتھ ہمیشہ ’واقفِ زندگی‘ ضرور لکھا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ ہمیں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ آپ لوگوں کا اصل ٹائٹل یہی ہے، باقی منصب تو بدلتےرہتے ہیں۔
اپنی وفات سے دو روز پہلے آپ نے مجھے کہا کہ میرے والد صاحب جس دن فوت ہوئے تھے اپنے دفتر کا آخری دن کا کام بھی ختم کر کے گئے تھے اور اُس وقت ان کا کوئی کام pending نہیں تھا۔ اُس روز آپ نے باقی کام ختم کیا لیکن ایک دو معاملات تفصیلی غور کے متقاضی تھے، ان کے بارے میں کہنے لگے یہ کل کریں گے۔ چنانچہ دوسرے دن باقی ڈاک کے ساتھ یہ معاملات بھی نپٹا کر تقریبا ًتین بجے گھر گئے۔ جمعہ کو ہسپتال میں داخل ہوئے اور ہفتہ16 مارچ کو آپ کی وفات ہوئی۔ گویا زندگی کے آخری دن تک کام کرتے رہے اور کوئی کام pending نہیں رہنے دیا۔
آپ اپنے مفوضہ کام وقف کی روح کو مدّنظر رکھتے ہوئے پوری محنت اور تندہی سے انجام دیتے تھے۔ بیماری کی حالت میں بھی دفتر آجایا کرتے تھے اورچھٹی کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آخری دنوں میں، جب سانس کی تکلیف شروع ہوگئی تھی، ٹھیک طرح سے سو نہیں پاتے تھے، آنکھیں بوجھل اورچہرے پر تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہوتےتھے پھر بھی سارا سارا دن کام کرتے رہتے تھے۔ 14؍مارچ کو آپ نے بتایا کہ گزشتہ تین چار دن سے سانس کی تکلیف ہے اور ہومیوپیتھک دوائی سے کچھ خاص افاقہ نہیں ہوا۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کو ہسپتال سے معائنہ ضرور کروا لینا چاہیے۔ کہنے لگے: مَیں بھی یہی سوچ رہا ہوں لیکن اس میں وقت بہت صرف ہو جاتا ہے۔ پہلے ڈاکٹر سے وقت لو، پھر وہاں جا کرمعائنہ کرواؤ۔ پھر کئی ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔ اس میں بہت سا وقت خرچ ہو جاتا ہے اور دفتری کام کا ہرج ہوتا ہے۔
خلافت کا خاص ادب آپ کو ہمیشہ خوف ورجا کے مابین حالت میں رکھتا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں کوئی خط یا کسی دفتری معاملے کے بارے میں لکھنا ہوتاتو اپنی تحریر کو بار بار پڑھتے اور کاٹ کاٹ کر لکھتے کہ مبادہ کوئی ایسی بات رقم ہوجائےجو مناسب نہ ہو۔ یہ بھی خیال رکھتے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دل میں فلاں سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے اس کی وضاحت بھی آجانی چاہیے۔
آپ بیان کیا کرتے کہ جب مَیں ایم اے کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور فرمایا کہ نوجوانوں کو بھی وقف کی تحریک کریں اور الفضل میں مضمون لکھیں۔ حضوؓر نے یہ بھی فرمایا کہ محض خدا کے لیے کام کرنا ہے۔ دوسروں سے تعاون کرتے ہوئے کام کریں لیکن جماعت کا مفاد ہمیشہ مدِّنظر رہے۔ جہاں جماعتی مفاد کا ہرج ہو رہا ہو وہاں کسی کی کوئی پروا نہیں کرنی، خواہ کوئی ہو، پھر خدا کی خاطر Stand لینا ہے۔
آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ آپ کے والد صاحب نے حضورؓ کو دعا کی درخواست کی کہ فلاں تاریخ کو میرے بیٹے مصلح الدین کی شادی ہے۔ آپ کی رہائش اُن دنوں چنیوٹ میں تھی۔ حضورؓ نے اس بات کو یاد رکھا اور اُس دن اپنی گاڑی بھجوائی تاکہ رخصتی کے بعد آپ کو اپنی بیگم کے ساتھ ربوہ سے چنیوٹ پہنچا آئے۔
آپ بہت حاضر دماغ رہتے تھے۔ ایک بار دفتر میں مجھے اچانک بہت زیادہ پسینہ آنے لگا تو آپ نے ایک نیا نفیس چھوٹا تولیہ بطور تحفہ عنایت کیا۔ اسی طرح ایک دن آپ مسجد مبارک میں صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کے ساتھ کھڑے نماز ادا کر رہے تھے۔ آپ سنتیں ادا کر کے بیٹھے تھے کہ صاحبزادہ صاحب سجدے میں جا کر اُٹھے تو اُن کے چہرے کے آثار دیکھ کر آپ نے اندازہ کر لیا کہ سجدہ کی جگہ صاف نہیں۔ آپ نے اپنی جیب سے بالکل نیا رومال نکال کر اُن کی سجدے کی جگہ پر بچھا دیا۔ بعد میں انہوں نے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ آپ نے بالکل صحیح اندازہ کیا تھا، اُس جگہ سے بدبو سی آ رہی تھی۔
آپ بہت صفائی پسند تھے۔ لباس پوشاک، رہن سہن اور کھانے پینے ہر چیز میں نفاست تھی۔ آپ کے پاس ہر سوٹ میں ہمہ وقت2 رومال رہتے تھے۔ ایک منہ وغیرہ صاف کرنے کے لیے اور دوسرا ناک وغیرہ کی صفائی کے لیے۔
محترم چودھری صاحب ایک خوش ذوق انسان تھے۔ عمر کے آخری حصے میں بھی لباس انتخاب کر کے پہنتے تھے۔ جوتے بھی ہمہ وقت صاف رکھتے تھے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ زمانۂ طالبعلمی میں جب ہمارے وسائل بہت کم تھے تب بھی مَیں اپنے آپ کو نسبتًا خوش لباس ہی رکھتا تھا۔ ایک بہت اچھا سفید سوٹ میرے پاس تھا جس کو میں بعض دفعہ ایک دن پہن کر رات کو دھو لیتا اوردوسرے دن پھر وہی پہن لیتا تھا اور لوگ سمجھتے کہ شاید میرے پاس کئی ایسے قیمتی لباس موجود ہیں، حالانکہ وہ ایک ہی اچھا سوٹ تھا۔ آپ مربیان اور واقفینِ زندگی کو بھی نصيحت کرتے کہ اپنی وضع قطع ایسی نہ بنائیں جسے دیکھ کر دوسرے لوگ ترس کھائیں اور قابلِ رحم سمجھیں، بلکہ تنگدستی کے باوصف اپنے وقار کا خیال رکھنا چاہیے اور عزتِ نفس کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔
علمی لحاظ سے بھی آپ ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کا خاص شوق تھا۔ قرآن کریم کا معتد بہ حصہ زبانی یاد تھا اور ایسے تمام مقامات جن کے الفاظ آپس میں ملتے جلتے تھے آپ نے نشان زدہ کیے ہوئے تھے۔ اپنی یادداشت اور غلطی سے بچنے کے لیے ایک جگہ پر دوسری جگہ کا حوالہ لکھا ہوتا تھا۔ اکثر بتایا کرتے تھے کہ یہی الفاظ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ فلاں آیت میں بھی آئے ہیں اور حُفّاظ عمومًا غلطی سے یہاں سے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔
آپ کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلفاء کی تفاسیر اور انگریزی ترجمہ وتفسیر پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ بیشتر اہم تفسیری نکات ازبر ہوتے تھے۔ عربی زبان سے واقفیت کم ہونےکے باوجود آپ نے قرآن کریم کا اس قدر مطالعہ کیا ہوا تھاکہ براہِ راست قرآن کریم کے عربی متن کو بخوبی سمجھ لیتے تھے اور بنیادی عربی قواعد بھی جانتے تھے۔
آپ کو مسجد مبارک میں امامت کروانے کا شرف بھی حاصل رہا۔ آپ یہ التزام کرتے تھے کہ قرآن کریم کے مختلف حصے نمازوں میں سنائیں تاکہ مقتدی قرآن کریم کے مختلف مضامین کی سیر کرسکیں۔ چنانچہ آپ مضمون کو پیشِ نظر رکھ کر آیات منتخب کیا کرتے تھے اور باقاعدہ تیاری کرکے جایا کرتے تھے۔ یہ بھی کہتے تھے کہ مسجد مبارک مرکزی مسجد ہے اس میں امامت کے لیے تیاری کے ساتھ جانا چاہیے۔ یہی حال آپ کے درسوں کا تھا۔ جو درس دینا ہوتا اسے ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے بعد درس دیا کرتے تھے۔
آپ ہر کام کی پیشگی تیاری کرتے تھے، چاہے کوئی میٹنگ ہو یا مجلس ہو۔ ممکنہ سوالات کا جواب پہلے ہی تیار رکھتے تھے۔ مجلس افتاء کے ممبر بھی تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی معروف کتب کے اہم حوالہ جات آپ کو یاد ہوتے۔ نیز غیرمبائعین کے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اور حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے بھی یاد کیے ہوئے تھے۔ تاریخِ احمدیت پر بھی عبورحاصل تھا۔ قواعد صدرانجمن اور قواعد تحریک جدید میں آپ اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ اکثر یہ بھی یاد ہوتا کہ فلاں قاعدہ میں فلاں وقت حضرت خلیفۃالمسیح کے ارشاد پر یا منظوری سے فلاں تبدیلی ہوئی تھی۔
کارکنان کے ساتھ شفقت کا سلوک کرتے۔ کارکنان آپ سے ڈرتے بھی تھے اور محبت بھی رکھتے تھے۔ آپ کی وفات پر ایک کارکن نے روتےہوئے کہا کہ آج ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہمارے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ہو، آپ ہم سے ناراض بھی ہوتے اور کبھی ہم آپ کی کسی بات پر نالاں بھی ہو جاتے لیکن ایک عجیب سا اپنائیت کا تعلق برقرار رہتا تھا۔ اگر کبھی آپ سختی کرتے تو بعد میں دلداری بھی کردیتے۔
کارکنان کی تعلیم وتربیت کا خیال رکھتے تھے۔ ان کو وکالتِ تعلیم میں منعقد ہونے والی علمی کلاس میں شامل کرتے، قرآن کریم کے بعض حصے اور چہل احادیث وغیرہ یاد کرواتے۔ مکرم مبشر احمد قمر صاحب اکاؤنٹس مینیجر بیان کرتے ہیں کہ مکرم چودھری صاحب کی تحریک پر مجھے چہل احادیث حفظ کرنے کی توفیق ملی، اسی طرح آپ مجھے اکاؤنٹس سے تعلق رکھنے والے اہم نکات بھی سکھاتےتھے۔ مَیں جنوری 1997ء سے اکاؤنٹس کے شعبے سے وابستہ ہوں لیکن 2011ء میں جب مجھے وکالتِ تعلیم میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو ایسے لگتا تھا جیسے مَیں نے اب اکاؤنٹس کا کام سیکھنا شروع کیا ہے۔ آپ ہر کام مہارت پیدا کرلیتے۔ بڑی بڑی رقموں کا حساب سیکنڈز میں کر لیتے۔ یہ ہدایت بھی دی ہوئی تھی کہ چھٹی کے وقت اپنا روز کا حساب مکمل کر کے جایا کریں اور یہ سمجھا کریں کہ ممکن ہے کل یہ کام میرے ذمہ نہ ہو۔
آپ اپنے بیشتر کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ مکرم قیصرمحمود صاحب نائب وکیل التعلیم بیان کرتے ہیں کہ جب بارش ہوتی آپ اپنے کوارٹر کی چھت پر جا کر پرنالے سے درختوں کے پتے صاف کیا کرتے تھے تاکہ پانی رُکنے سے چھت کو نقصان نہ ہو۔ کئی دفعہ کہا کرتے تھے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر مرمت کے لیے درخواست نہیں دینی چاہیے اور یہ کہ مَیں اپنے کوارٹر کا چھوٹا موٹا کام خود ہی کر لیتا ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب” ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ. عزیزم مجدالدین احمد صاحب کے بیان میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہوں. محترم چودھری صاحب بظاہر کچھ سخت گیر معلوم اور محسوس ہوتے تھے مگر دل کے بہت نرم بھی تھے. مجھے یاد ہے جب کسی غلطی پر ناراض ہوتے تو کچھ دیر بعد ہی اپنے گھر فون کر کے کہتے کہ آج اور ابھی پکوڑے اور سموسے بنا دیں لڑکوں نے چائے پینی ہے. چائے بھی بنادیں. پھر دفتر کے مددگار مکرم عبدالرشید صاحب کو کہنا کہ گھر سے چائے سموسے وغیرہ لے آؤ. پھر سب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے. ایک دفعہ ایک ہفتہ گزر گیا محترم چودھری صاحب نے بظاہر مجھے کچھ نہ کہا تو مجھے محسوس ہوا کہ چوہدری صاحب مجھ سے ناراض ہیں. ہفتہ کے دن جب میں دفتر گیا تو اپنے ایک ساتھی مکرم منصور احمد صاحب کو کہا کہ چوہدری صاحب مجھ سے ناراض ہیں؟ وہ کہنے لگے: مجھے نہیں پتہ،مجھ سے تو کوئی بات نہیں کی. پھر ہم دونوں چودھری صاحب کے گھر چلے گئے. آپ باہر آئے تو دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ کیا ہوا، کیا بات ہے. تو منصور صاحب نے بتایا کہ قدوس کا کہنا ہے کہ چوہدری صاحب مجھ سے ناراض ہیں. کہنے لگے کیوں تم نے کیسے یہ سمجھ لیا؟ میں نے اپنا احوال بتایا تو مجھے گلے سے لگا کر کہنے لگے: میں کیوں ناراض ہوں گا، جب تم کام صحیح کرو گے تو کیوں ناراض ہوں گا.
    اپنے ساتھی کارکنوں کی خاموشی سے مدد کرنا ان کا مشغلہ تھا. یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ کام میرے سپرد تھا کہ دیکھو کون سا کارکن مستحق ہے. میں نے جس کی سفارش کی اس کے لئے وظیفہ مقرر کر دیا. جب یہ کام بڑھ گیا، پھیل گیا تو اپنے ایک دوست کو اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کو کہا. الحمدللہ اس دوست نے کمال درجہ کی دوستی نبھائی اور اپنی آخری سانس تک ساتھ دیا. غریبوں کی مدد، طالب علموں کی مالی مدد جو ایک زمانے میں سینکڑوں سے شروع ہوئی اور ہزاروں روپے تک گئی. مجھے یاد ہے اور میں ایسے چار لڑکوں کو جانتا ہوں جو کالج کے زمانے سے لیکر اپنے MBBS تک وظیفہ سے پڑھے ہیں ان میں ایک چائنہ میں پڑھا اور تین لاہور اور ملتان میں. ان میں دو اس وقت لندن میں ہیں. رمضان المبارک میں اپنے کارکنوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مستحق لوگوں کی مدد بھی کرتے. یہ سب کام میرے سپرد تھے. امداد کا یہ سلسلہ محترم چودھری صاحب کی وفات کے بعد بھی میرے لندن آ جانے تک چلتا رہا، ان کی اولاد نے یہ کام جاری رکھا ہوا ہے.
    آپ دفتری کام کے لیے جب ربوہ سے باہر جاتے تو خاکسار کو اپنے ساتھ رکھتے. جب ہماری گاڑی مین روڈ پر ہوتی تو مجھے کہتے کہ قرآن مجید کا فلاں سپارہ کھول لیں. پھر وہ زبانی سناتے اور میں قرآن مجید سے دیکھتا رہتا شاز کی کبھی کوئی غلطی کی ہو. ہمارا لاہور کا سفر اکثر اسی طرح گزرتا تھا. اس طرح انہوں نے سارا قرآن مجید حفظ کر لیا ہوا تھا. بہت کچھ لکھ سکتا ہوں. اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور اپنے پیاروں کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی اولاد در اولاد کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین.

اپنا تبصرہ بھیجیں