محترم چودھری محمد احمد صاحب شہید کا خاندان

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 12 ؍مارچ 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍مارچ 2013ء میں مکرمہ ڈاکٹر ط۔نوید صاحبہ نے 28 مئی 2010ء کو سانحہ لاہور میں نذرانۂ جان پیش کرنے والے اپنے والد مکرم چودھری محمد احمد صاحب کے خاندانی پس منظرکو اختصار سے بیان کیا ہے۔
مکرم چودھری محمد احمد صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے دادا حضرت چودھری فضل داد صاحبؓ ابن قطب دین کاتعلق اولکھ زمیندار گھرانہ سے تھا۔وہ اندازاً 1873ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباواجداد سیالکوٹ سے ضلع فیصل آبادکے ایک گاؤں میں آکر آباد ہوئے تھے۔ حضرت فضل داد صاحبؓ نے 1895-1996ء میں قادیان جا کر حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ آپؓ نے اپنی بیعت کا واقعہ یوں بیان فرمایا ہے کہ مَیں تحقیق حق کے لیے1895ء یا 1896ء میں قادیان گیا اور وہاں مجھ پر حق کھل گیا تو مَیں نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا (کیونکہ میں نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ خیال کیا)۔ مولوی صاحبؓ نے حاضرین کو فرمایاکہ مجھے اس روپیہ کی بڑی ضرورت تھی اور خدا نے اچھے موقع پر دیا ہے۔مولوی صاحب چونکہ طبیب تھے اور انہوں نے خیال کیا کہ یہ شخص مریض ہے اور مجھ سے دریافت کیا کہ تمہیں کیا بیماری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں بیمار نہیں ہوں صرف بیعت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مولوی صاحب نے روپیہ مجھے واپس دے دیا اور فرمایا کہ بیعت لینے والا اَور ہے، مَیں نہیں ہوں۔پھر مَیں نے ایک شخص کوکہا کہ میری بیعت کروا دو۔ اس نے کہا کہ جس وقت حضرت صاحب سیر سے واپس تشریف لاکر مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے راستے گھر کو تشریف لے جاویں اس وقت بیعت کے لیے عرض کرنا۔چنانچہ ایک روز جب حضورؑ سیر سے واپس تشریف لاکرگھر کو جانے لگے تو مَیں مسجد مبارک میں گھر کے اندر جانے والے دروازے کے پاس کھڑا ہوگیا۔جب حضورؑ تشریف لائے تو مصافحہ کیا، نذرانہ دیا اور بیعت کرنے کے لیے عرض کیا۔حضوؑر نے ایک شخص کو فرمایا کہ بعد نماز مغرب ان کو بیعت کروا دینا۔چنانچہ بعد نماز مغرب حضرت اقدسؑ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دس شرائط بیعت دہرا کر مجھ سے بیعت لے لی۔
جب مَیں قادیان سے واپس گاؤں آیا تو ایک سیّد مسمّی دولت شاہ نے مجھے کہا کہ تم جس شخص کی بیعت کر کے آئے ہو، وہ نہ شفاعت کے قائل ہیں اور نہ ہی نبیوں کے معجزات کے قائل ہیں۔چنا نچہ قادیان حضوؑر کی خدمت میں خط لکھا گیا تو وہاں سے مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے ہاتھ کا اس مضمون کا لکھا ہوا خط پہنچا کہ ’’جو شفاعت کا قائل نہیں وہ بھی کافر، جو انبیاء کے معجزات کا قائل نہیں وہ بھی کافر۔ حقیقی مُردے زندہ نہیں ہوسکتے۔ باقی دشمنوں کی زبان کو کون روکے؟‘‘
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں حضوؑر سے ملنے کے لیے قادیان گیا۔مسجد مبارک میں فجر کی نماز مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے پڑھائی۔ ایک صف میں 5آدمی کھڑے ہوتے تھے۔نماز کے بعد حضوؑر مسجد میں ٹھہر گئے اور فرمایا: ’’اللہ رحم کرے بارشیںبہت ہوگئی ہیں۔ سردی زیادہ پڑے گی اور طاعون بھی زیادہ پھیلے گی۔‘‘
ان دنوں طاعون کی پیشگوئی شائع ہوکر قادیان سے باہر طاعون پھیلی ہوئی تھی۔
آپؓ موصی تھے اور مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔1938ء میں آ پؓ نے اپنی زمین بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام ھبہ کردی تھی۔ 3؍اپریل 1950ء کوآپؓ کی وفات ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔ آپؓ بہت کامیاب داعی الی اللہ تھے۔گاؤں کے قریباً 40آدمی آپ کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ برکت بی بی صا حبہ بھی مخلص احمدی تھیں اور بہشتی مقبرہ قادیان میں آسودہ خاک ہیں۔
مکرم چودھری محمد احمد صاحب شہید کے والد مکرم نوراحمد صاحب 1898ء میں پیدا ہوئے تھے اور پیدائشی احمدی تھے۔ آپ نے 21؍مارچ1921ء کو وصیت کی۔ 9؍ستمبر1951ء کو آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ابتدائی زمانہ کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے تھے۔ احمدیت کی تعلیم میں رنگین تھے۔ امرتسر میں میڈیکل تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ کو علاقہ ملکانہ میں شدھی کی تحریک کا قلع قمع کرنے والے مجاہدین میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کام کو نہایت تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیا۔ اس تحریک کے ختم ہونے پر آپ کو اپنے وطن ضلع لائل پور میں ہی میڈیکل لائن میں خدمت کرنے کا موقع مل گیا۔ ان دنوں حضرت میر محمد اسمٰعیل صاحب لائل پور میں ہی سول سرجن تھے۔ ان کی سرپرستی اور ہدایات سے مستفیض ہوتے رہے۔ آپ عموماً دیہاتی ڈسپنسریوں میں ہی خدمت کرتے رہے اور دیہاتی لوگ آپ کے ہمیشہ گرویدہ رہے۔ آپ ایک خاموش مگر مخلص کارکن تھے۔ طبیعت میں ملاحت اور قدرے ظرافت بھی تھی۔ آپ کے وجود کے طفیل آپ کے خاندانی جھگڑے بہت حد تک دبے رہے اور اپنی صلح جُو طبیعت کی وجہ سے ہمیشہ عزت کی نظر سے دیکھے جاتے۔ آپ کی وفات پر جنازہ کے ساتھ گاؤں کے ہر خاندان کا ایک ایک فرد ربوہ تک آیا جن میں سے اکثر غیراحمدی تھے۔
فروری 1947ء میں آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔کسی دماغی اور محنت طلب کام کے گو ناقابل تھے مگر پاکستان میں ڈاکٹروں کی کمی کے باعث آپ ملازمت سے الگ نہ ہوسکے اور کمزوریٔ صحت کے باوجود خدمت خلق میں مصروف رہے۔ بوقتِ وفات بھی قومی رضا کاروں کے ایک گروپ کا طبی معائنہ کررہے تھے کہ ایک بار پھر فالج کا حملہ ہوا اور آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے۔ بعدازاں اسی حالت میں وفات پائی۔
مرحوم نے بیوہ کے علاوہ 3لڑکے اور 4لڑکیاں یادگار چھوڑے ہیں۔آپ کی اہلیہ محترمہ سردار بی بی صا حبہ بھی نہایت مخلص احمدی خاتون تھیں اور چہور سانگلہ ہل سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ 13؍دسمبر1924ء کونظام وصیت میں شامل ہوئیں۔ 16؍فروری 1961ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔ وہ اپنی جماعت کی فعال رکن تھیں۔

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں