محترم چوہدری رشید احمد خاں صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8 جولائی 2009ء میں سابق امیر ضلع ملتان محترم چودھری رشید احمد خان صاحب کی یاد میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کے والد محترم حافظ صوفی محمد یارصاحب احمدی ہونے سے قبل کبیروالہ ضلع ملتان میں ایک دینی مدرسہ ’’روحانی ہسپتال‘‘ چلاتے تھے اور پیری مریدی کا شغل رکھتے تھے۔ علاقہ میں آپ کے معتقدین اور شاگردوں کی کثیر تعداد تھی۔ ضلع ملتان کے علماء میں آپ کا مقام جانا پہچانا تھا۔ اپریل 1978ء میں آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہاتھ پر دستی بیعت کی سعادت حاصل کی اور اپنے مدرسہ میں نماز جمعہ کے اجتماع میں اپنی قبول احمدیت کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان پر شدید مخالفت ہوئی، مخالفین نے مدرسہ پر قبضہ کر لیا اور مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے گھر کے دروازہ کے آگے دیوار تعمیر کر دی۔ ایک قریبی مدرسہ کے طلباء اور اساتذہ کو یہاں لا کر زبردستی بٹھا دیا جن کا کام ہمیں ڈرانا دھمکانا اور برے ناموں سے پکارنا تھا۔ خاکسار کی عمر آٹھ نوسال تھی اور یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان تھا۔
یکم مئی 1978ء کی دوپہر جب علماء اور عوام کا ایک بڑا ہجوم وہاں جمع تھا، نعرہ بازی ہورہی تھی۔ سپاہی اور افسران بھی آئے ہوئے تھے۔ گھر کے سامنے ایک کار آکر رکی۔ اس میں سے تین اشخاص اترے۔ ان میں سے ایک چھ فٹ کا لمبا آدمی سفید شلوار قمیص کے ساتھ سر پر سیاہ جناح کیپ سجائے اور خشخشی داڑھی
سے چہرہ مزین کئے مسکراتے ہوئے آگے بڑھا، بلند آواز سے سلام کیا اور کہا خاکسار کا نام چوہدری رشید احمد خاں ہے اور میری خدمت بطور امیر جماعت احمدیہ ضلع ملتان ہے۔ اس بات نے اجتماع پر سکوت طاری کر دیا ۔ آپ نے افسران سے بات چیت کی ۔ آپ کی گفتگو میں ایسا رعب تھا کہ افسران نے آپ کی ہر بات کو تسلیم کیا اور ناجائز قابضین کو فوراً وہاں سے بے دخل کر دیا۔ مکرم چوہدری صاحب کو خاکسار نے اُس وقت پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ بعد میں آپ کے ساتھ اُس وقت کام کرنے کا موقع بھی ملا جب 1984ء میں خاکسار مسجد حسین آگاہی میں بطور خادم مقرر ہوا۔
محترم چودھری رشید احمد خان صاحب کے والد محترم چوہدری چھجو خاں صاحب ایک معزز تعلیم یافتہ زمیندارہ خاندان ’’راجپوت گھوڑے واہ‘‘ سے تعلق رکھتے تھے اور جماعت احمدیہ سڑوعہ ضلع ہوشیار پور کے امیر تھے اور کشمیر میں فارسٹ آفیسر تھے۔اُن تک حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچا تو بذریعہ خط بیعت کرلی پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر دستی بیعت کی۔ 28دسمبر 1949ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے دوران اُن کی وفات ہوئی اور نماز جنازہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے پڑھائی۔
محترم چوہدری رشید احمد خانصاحب کی پیدائش سڑوعہ ضلع ہوشیار پور میں 1908ء میںہوئی۔ تعلیمی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ 1930ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے M.Sc. (باٹنی) کی اور محکمہ تعلیم میں بطور سائنس ٹیچر ملازم ہوکر 1933ء میں جڑانوالہ میں متعین ہوئے۔ بسلسلہ ملازمت پاکپتن، ساہیوال اور ملتان میں مقیم رہے۔ 1950ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ’’کمالیہ‘‘ میں ہیڈماسٹر مقرر ہوئے۔ 1956ء میں ملتان ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز مقرر ہوئے۔ 1965ء میں کمپری ہنسو ہائی سکول ملتان شہر کے پرنسپل بنائے گئے اور 1968ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنی تعلیمی خدمات پر ملتان بھر میں بہت عزت کمائی۔
سڑوعہ خاندان میں ہی آپ کی شادی مکرم چوہدری غلام احمد خانصاحب ایڈووکیٹ کی صاحبزادی محترمہ اصغری بیگم صاحبہ سے ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی۔
محترم چودھری صاحب نے نوجوانی میں وصیت کی۔ لازمی چندہ جات بروقت ادا کرتے۔ خلفاء کی جملہ تحریکات پر اوّلین لبیک کہتے اور معیاری وعدہ کرکے یاددہانی کرائے بغیر ادائیگی کرتے۔ لمبا عرصہ صدر مجلس موصیان ملتان شہر رہے۔ اپنی زندگی میں اپنی جملہ جائیداد و حصص کی تشخیص کے بعد ادائیگی کردی اور بوقت وفات حسابات دفتر وصیت میں مکمل تھے۔
آپ بطور قاضی بھی متعین رہے۔ آپ کا خاص امتیاز تھا کہ ہر اجلاس میں سب سے پہلے تشریف لاتے، صائب مشورہ دیتے اس لئے آپ کی رائے کو اہمیت دی جاتی اور اکثر آپ کی رائے پر فیصلہ ہوتا۔
1970ء میں ضلع ملتان کے امیر مقرر ہوئے تو جماعتوں کو فعال بنانے کے لئے رابطہ کا مضبوط انتظام کیا۔ 1974ء کے ہنگاموں میں فساد کا مرکز ملتان ہی تھا۔ آپ نے دعائوں پر زور دیتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا اور خداتعالیٰ کے فضل سے ملتان شہر کے حالات قابومیں رہے۔ خاص طور پر احمدی طلباء کو دھمکیوں اور حملوں کا سامنا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو امتحان نہ دے سکنے کے علاوہ جان کا خطرہ تھا۔ کالج کے پرنسپل جناب سید ظفر حیدر شاہ صاحب (سرجن) نہایت عالی ظرف محب وطن اور ہمدرد انسان تھے۔ چوہدری صاحب نے اُن سے رابطہ کرکے گیارہ احمدی طلباء کو، جن کا سامان ہوسٹل سے نکال کر نذرآتش کردیا گیا تھا، عارضی طور پر ’’شیزان ہوٹل‘‘ میں منتقل کیا اور پھر اپنے مکان میں پناہ دی۔ وہیں رہ کر وہ طلباء امتحان میں شامل ہوئے اور کامیاب ہوئے۔
1974ء کے نامساعد ایام میں آپ نے بھرپور خدمت کی توفیق پائی۔ ملتان کے دل حسین آگاہی میں نہ صرف مسجد کو وسعت دی بلکہ موقع پر کھڑے ہو کر کام کی نگرانی کی۔ علی الصبح گھر سے آتے، سارا دن مسجد میں کام کاج دیکھتے، شر پسندوں کا سامنا کرتے اور دعائیں کرتے ہوئے رات گئے اپنے گھر واپس چلے جاتے۔ اسی طرح ملتان شہر کی جامع مرکزی مسجد کی زمین سے قابضین کو بے دخل کرنا بھی آپ کا نمایاں کارنامہ ہے۔ آپ کو جماعت کی ضروریات کا خاص خیال رہتا اور آپ جماعتوں کو مساجد اور قبرستان کے لئے جگہ مخصوص کرنے کی نصیحت کرتے رہتے۔ آپ نے ملتان شہر کے لئے تگ و دو کے بعد ایک قطعہ زمین 4 کنال کا خریدا ، ضروری سرکاری کارروائی کے بعد قطعہ کی چار دیواری کراکے گیٹ لگوایا اور اندرونی جگہ کو ہموار کرا دیا۔
آپ بہت مہمان نواز تھے۔ وقت اور موسم کے مطابق مہمان کے لئے خوراک اور بستر کا اہتمام کرتے۔ اس میں اپنے اور بیگانے کا کوئی امتیاز نہ ہوتا۔ صفائی کا بہت خیال رہتا۔ کارکنان کو مہمان کے جذبات کا احترام کرنے کی نصیحت کرتے رہتے۔
چوہدری صاحب کا اپنے اور غیر دونوں احترام کرتے۔ آپ بہترین معلّم رہے تھے اور حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ بڑے بڑے خاندانوں کے بچے آپ کے شاگرد تھے جو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ آپ کسی ادارہ میں جاتے تو افسران آپ کو سیلیوٹ کرتے اور بازار کو جاتے تو تاجر حضرات کھڑے ہو کر دست بستہ سلام کرتے۔ ملتان کے جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ اکثر ضرورتمند آپ کے درپر آتے اور آپ تعلقات کی بناء پر اُن کا کام کروا دیتے۔ آپ کا سب سے بڑا تعارف احمدیت تھا، آپ بلا کے نڈر اور دینی غیرت رکھنے والے تھے۔ کسی مجلس میں جماعت کے مؤقف کے خلاف کوئی بات ہوتی تو فوراً تردید کرتے اور جماعت کا مؤقف اس عمدگی سے بیان کرتے کہ محفل پر سناٹا چھا جاتا اور ہر شخص گرویدہ ہوجاتا۔
آپ کا حافظہ خوب تھا۔ کسی جماعت سے کوئی آتا تو اُس پوری جماعت کے افراد کے نام آپ کے ذہن میں ہوتے۔ اُن کی صحت، کاروبار کا پوچھتے۔ بسااوقات آنے والے کو اپنی جماعت کے احباب کے نام یاد نہ آتے لیکن چوہدری صاحب نہ صرف نام بتاتے بلکہ ان کے باپ دادا کے اسماء بھی بتا دیتے۔ خداتعالیٰ نے آپ کو بصارت و بصیرت سے خوب نوازا تھا۔ عمر کے آخری حصہ تک اخبار آسانی سے پڑھ لیتے تھے۔
1984ء میں ملتان میں کئی معصوم احمدی اسیر راہ مولیٰ بنائے گئے۔ آپ ہر اسیر کا خیال رکھتے اور وفود تیار کرکے ملاقات کے لئے بھجواتے۔ جیل حکام سے مل کر اُن کے لئے گھر کے کھانے کا انتظام کروایا۔ اُن کی صحت کا ہر طرح خیال رکھتے، اُن کی تکالیف سن کر آبدیدہ ہوجاتے اور کہا کرتے کہ وہ ہمارا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ اُن ایام میں لندن سے آنے والے خطبات کی کیسٹس کو ہر گھر تک پہنچانے کا انتظام ذاتی نگرانی میں کرواتے۔
آخری وقت تک محترم چودھری صاحب کی یادداشت مضبوط، صحت اچھی اور آواز میں گرج قائم رہی۔ 30 دسمبر 2002ء کو 94 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ جنازہ ربوہ لایا گیا جو حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) نے پڑھایا۔ موصی ہونے کی برکت سے تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں