محترم چوہدری عبدالرحمان صاحب اور محترمہ برکت بی بی صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 جون 2010ء میں مکرم ندیم احمد مجاہد صاحب نے ایک مضمون میں اپنے دادا محترم چوہدری عبدالرحمان صاحب اور دادی محترمہ برکت بی بی صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چوہدری عبدالرحمان صاحب میٹرک پاس تھے ۔ کپورتھلہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ آپ اپنے ایک احمدی کلاس فیلو کے اخلاق سے بہت متأثر تھے۔ 1908ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر مخالفین نے توہین آمیز اشتہارات شائع کئے تو آپ کے دل میں جماعت کے متعلق دلچسپی پیدا ہوگئی۔ چند سال بعد یہ شوق اتنا بڑھا کہ تحقیق کی غرض سے چند دوستوں کو ساتھ ملاکر بذریعہ سائیکل قادیان پہنچ گئے۔ یہ حضرت مصلح موعودؓ کے دَور کا آغاز تھا۔ آپ کو حضور کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور اعتراضات کی حقیقت کا علم ہوا۔ چنانچہ آپ نے وہاں بیعت کرلی۔
آپ کی شادی برکت بی بی صاحبہ سے ہوئی جوکہ غیراحمدی تھیں اور اَن پڑھ بھی تھیں۔ اُن کے خاندان میں ایک نامی گرامی پیر ہوئے تھے۔ پیر صاحب کو جب علم ہوا کہ ان کی شادی ایک مرزائی (احمدی) کے ساتھ ہوئی ہے تو وہ گھوڑے پر بیٹھ کر آپ کو ملنے گاؤں آئے اور ان کو بتایا کہ تمہارا نکاح ختم ہوگیا ہے اس لئے اپنے مرزائی خاوند کو چھوڑ دے۔ لیکن آپ عقلمند اور حاضر جواب تھیں۔ جواب دیا کہ اب تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب کیوں نہ اس کو پھر سے مسلمان کریں؟ پیر صاحب اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور ان کا ساتھ دینے کی حامی بھری۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے پیر صاحب کو دعوت پر بلایا اور بہت خاطرمدارات کی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ پیر صاحب سے کہنے لگیں کہ پیر صاحب! غضب ہوگیا، آپ نے تو ایک مرزائی کی کمائی کھالی۔ پیر صاحب بولے: اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس پر برکت بی بی صاحبہ نے جواب دیا کہ پھر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک مرزائی کی کمائی کھاؤں۔ یہ سن کر پیر صاحب خاموشی سے چلے گئے اور پھر دوبارہ نہیں آئے۔
لوگوں کی مخالفت دیکھ کر ہی برکت بی بی صاحبہ کو احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ اپنے شوہر سے معلومات لینے لگیں۔ دعا بھی کرتی رہیں۔ کچھ عرصہ بعد خواب دیکھا تو بیعت کرلی۔
قیام پاکستان کے بعد یہ گھرانہ سلانوالی ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں میں آباد ہوگیا۔ یہیں آپ کو زمین الاٹ کی گئی۔ اس علاقہ میں یہ واحد احمدی گھرانہ تھا۔ ہر قسم کی مخالفت اور نقصان پہنچانے کی کوشش کا جواب صبر اور دعوت الی اللہ سے دیا جاتا۔ کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی جاتی۔ ٹرک لیا تو وہ جلا دیا گیا اور کاروبار شروع کیا تو لوگ سامان لُوٹ کر چلے گئے۔ لیکن ان تمام مصائب کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور آپ کے ایمان میں ذرہ بھر بھی لغزش نہیں آئی۔ گاؤں کی عورتیں برکت بی بی صاحبہ کو کہتیں کہ اگر مسلمان نہ ہوئیں تو کوئی گاؤں میں دفن بھی نہ ہونے دے گا۔ وہ جواب دیتیں کہ مَیں تو اِسی جگہ دفن ہوکر رہوں گی۔
13 فروری 1973ء کو جب محترمہ برکت بی بی صاحبہ کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے ان کی تدفین کی راہ میں بہت رکاوٹ ڈالی۔ ان کے 3 بیٹے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر سب سے چھوٹے بیٹے چوہدری محمد عرفان پولیس سٹیشن چلے گئے اور حالات بیان کئے۔ تھانیدار نے فوراً سرگودھا سے پولیس اور انتظامیہ بلائی اور اُسی وقت گاؤں پہنچ کر پٹواری اور تحصیلدار سے ایک کنال زمین کا ٹکڑا احمدیوں کے قبرستان کے لئے سرکاری طور پر مختص کیا گیا اور اس قبرستان کی حدبندی کی گئی۔ جس کے بعد پورے گاؤں والوں نے قبر کی تیاری میں ہاتھ بٹایا اور قبر تیار کی گئی۔ تدفین کے بعد افسران اور دوسرے لوگوں نے تعزیت بھی کی۔ یہ نظارہ گاؤں کے لوگ دیکھ رہے تھے جو اس خاتون کو یہاں دفنانے کو تیار نہ تھے۔ لیکن اب انہی سرکاری اہلکاروں کے لئے انہوں نے کھانا بھی تیار کیا۔ چنانچہ ایک احمدی خاتون کی کہی ہوئی بات بڑی شان سے پوری ہوئی۔ محترم عبدالرحمن صاحب بھی 1980ء میں فوت ہو کر اسی قبرستان میں دفن ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو ہر طرح سے برکت بخشی اور آج ان کی نسل میں 16 بچے وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ ایک پڑنواسہ جامعہ کا طالبعلم ہے۔ دیگر بچوں میں فوج اور بینک کے افسر، ڈاکٹر اور استاد شامل ہیں۔ اور اکثر جماعتی خدمات میں بھی نمایاں ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں