محترم چوہدری محمد انور حسین صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 فروری 2009ء میں محترم چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ مرحوم (سابق امیر جماعت احمدیہ ضلع شیخوپورہ) سے متعلق ایک مضمون مکرم ملک لطیف احمد سرورصاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب موضع چمیاری ضلع امرتسر کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد محترم چوہدری حسین بخش صاحب پولیس انسپکٹر تھے جو بعد ازاں سب رجسٹرار مقرر ہوئے۔ جبکہ داداجنرل مبارک علی کا شمار رئیسان پنجاب میں ہوتا ہے۔
مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب کو دوران تعلیم 1932ء میں صرف پندرہ سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر شرف بیعت کی سعادت ملی۔ پھر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ اپنی والدہ محترمہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس ساری نسل میں واحد لڑکا پیدا ہوتا رہا ہے۔ والدہ محترمہ نے انتہائی محبت کے باوجود آپ کو جماعت میں شمولیت سے روکنے کے لئے سخت حربے بھی استعمال کئے۔ برادری نے بھی شدید دباؤ ڈالا۔ لیکن اس وقت آپ کا جواب مخالفین کو یہ ہوتا تھا: ’’آپ لوگ ایک شخص کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔ میں نے جس کو مانا ہے اس نے سچ کے سوا کچھ نہیں کہا‘‘۔ حتیٰ کہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ حضورپُرنور نے انہیں سامنے کرسی پر بیٹھنے کے لئے فرمایا تو انہوں نے احتراماً کہا کہ وہ اپنے بیٹے کے پیرکے مقابل میں نہیں بیٹھ سکتیں، صرف اتنی عرض ہے کہ اس کو اپنی مریدی سے نکال دیں۔ اس پر حضور پُرنور نے تبسم کیا اور فرمایا : ’’کیا یہ آپ کی پہلے سے زیادہ خدمت اور فرمانبرداری نہیں کرتا؟ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے گا اور یہ خاندان کے لئے خوش بختی کا نشان ہو گا‘‘ ۔
نازونعم میں پلے ہوئے ایک نوجوان کے لئے یہ دَور نہایت اذیّت اور کرب کا تھا جو آہستہ آہستہ مدھم پڑتا گیا۔ آپ نے اپنی تمام ترتوجہ حصول علم کی طرف رکھی۔ یہ دَور اُن کے لئے تربیت اور صعوبتیں برداشت کرنے کا دور تھا۔ اس لئے فرمایا کرتے تھے کہ ان تکالیف نے مجھے زندہ رہنے کا سلیقہ سکھلایا اور انسانیت کا شعور بخشا۔ میں اپنے غموں کے مداوا کے لئے حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور پھر یہی میرا زندگی بھر دستورالعمل رہا۔
حصول تعلیم کے بعد آپ نے امرتسر میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی۔ ذہین، نکتہ ساز، حاضر جواب اور حاضر دماغ تھے۔ آپ نے وکالت میں بھی ایک درخشاں مقام حاصل کیا۔ جرح کے ماسٹر تھے، جرح کرتے وقت وہ گواہ کو ایسے مقام پر لے آتے تھے کہ گواہ سے حقیقت اگلوا لیتے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد حضورؓ نے ان کی تقرری ضلع شیخوپورہ کے امیر کے طور پر فرمائی۔ ابتداء میں جماعت کا سنٹر محلہ احمدپورہ میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں مکرم چوہدری مقبول احمد صاحب (ر) ڈسٹرکٹ انجینئر جو بعد میں نائب امیر بھی رہے۔ انہوں نے اپنا پلاٹ واقع محلہ جہانگیرآباد جماعت کے لئے وقف کردیا۔ پھر یہاں مسجد مبارک کی تعمیر ہوئی۔ مسجد کی تعمیر میں بھی بہت سی دشواریاں پیدا ہوئیں جو اللہ تعالیٰ کے احسان اور خلیفہ وقت کی د عاؤں کے نتیجہ میں دور ہوگئیں۔
محترم چودھری صاحب نہ صرف مرکز میں تشریف لاکر خدمت کاسلسلہ جاری رکھتے بلکہ آپ کے گھر کے دروازے بھی ہر خاص و عام کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے تھے۔ اسی وجہ سے افراد جماعت سے ان کے ذاتی تعلقات تھے۔ اُن کے غموں اور خوشیوں میں شامل ہوتے تھے۔ مہمان نوازی آپ کا طرّہ امتیاز تھا۔ عالمی سیاست اور ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے نیز سماجی تعلقات اور روابط کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑا فیاضانہ دل دیا تھا۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کی تبدیلی جون 1965ء میں گورنمنٹ ہائی سکول شیخوپورہ میں ہوئی۔ وہاں احمدی اور غیراحمدی وکلاء کو اختلاف عقائد کے باوجود آپ کی شاہانہ اور فیاضانہ فطرت کا معترف پایا۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ہڈیارہ، کھیم کرن اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے مہاجرین کی قیام گاہیں گورنمنٹ ہائی سکول شیخوپورہ اور گورنمنٹ ڈگری کالج شیخوپورہ قرار پائیں۔ اس وقت قوم میں اپنے دکھی بھائیوں کی خدمت کا ایک خاص جذبہ تھا۔ انتظامیہ کو بہت سے عطیات وصول ہوئے جن کی مناسب تقسیم نہ ہونے پر شکایات پیدا ہوئیں۔ بروقت کھانا نہ ملنے اور ناقص انتظامات اور کچھ اخلاقی شکایات تھیں۔ جس پر جناب شیرمحمد صاحب لالی ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ نے برہمی کا اظہار کیا اور سیاسی لیڈران اور انتظامیہ سے کہا کہ آپ لوگ چند ہزار لوگوں کو نہیں سنبھال سکے اور شکایات کے انبار لگا دئیے ہیں اس لئے اس کام کو کیوں نہ ان لوگوں کی نگرانی میں دے دیا جائے جو یہ کام جانتے ہیں۔ چنانچہ پھر چوہدری محمد انور حسین صاحب سے کہا کہ آپ جلسہ سالانہ کے انتظامات کرواتے رہتے ہیں اس لئے اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے اپنے آدمی لگائیں۔ چنانچہ ایک ٹیم تشکیل دی گئی، ربوہ سے بھی بارہ خدام منگوائے گئے۔ اور اس سلسلہ میں مجھے بھی خاص خدمت کی توفیق ملی جس کے دوران آپ کے حسن انتظام اور اعلیٰ اخلاق کا مشاہدہ بھی بھرپور طور پر ہوا۔
محترم چودھری صاحب اپنی مہمان نوازی، خوش خلقی اور غریب پروری کے سبب بھی ہر خاص و عام میں مشہور تھے۔ سیاسی، سماجی اور دینی اکابرین کی غمی خوشی میں بھی شرکت کرتے تھے۔ میں نے اُن کی رفاقت میں قریباً تیس سال مختلف خدمات کی توفیق پائی۔ آپ کے ذہن میں امیر اور غریب کا فرق کوئی نہ تھا۔ خوش اخلاق تھے خوش لباس تھے۔ لطیف احساسات اور باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے۔ خوشبو کے دلدادہ تھے۔ جب بھی کسی تقریب میں جاتے خود بھی لگاتے اور اپنے ہمراہ ساتھیوں کو بھی لگاتے۔ انہیں بھی دوسروں سے روابط بڑھانے اور ان کے دکھ درد میں شامل ہونے کی تلقین فرماتے تھے کہ مذہب کا مقصد ہی بنی نوع انسان سے محبت اور خدمت ہے۔ انسان کا گھر کی چاردیواری میں محدود ہو جانا بے عقلی کی دلیل ہے کیونکہ وہ دنیا کے حالات سے ناواقف ہو جاتا ہے اور اپنے محدود خیالات کی وجہ سے اس میں ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جس شخص کا جس قدر دائرہ تعارف وسیع ہو تاجاتا ہے اسی قدر اس پر یہ بات کھلتی جاتی ہے کہ لوگوں کی ترقی وتنزل کے اسباب کیا ہیں؟ اس میں ان کی محنت و تدبر کا کہاں تک عمل دخل ہے یہ غور و فکر اور تدبر اس میں فیاضی اور انصاف پیداکرتا ہے اور وہ خود بھی کوشش اور تدبر کی طرف مائل ہوتا ہے۔
1974ء میں آپ نے خدمت دین کے نئے راستے تلاش کئے ۔ ہر جمعرات کو غیر از جماعت وفود کو ربوہ لے جاتے، خلیفۂ وقت سے ملاقات کرواتے جس کا بہت مفید اور مثبت نتیجہ نکلا اور بیعتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ خاکسار بحیثیت قائد خدام الاحمدیہ ضلع اُن کے ہمراہ دَوروں میں شریک رہتا۔ اِن دوروں میں اور خلیفۂ وقت سے ملاقاتوں میں بہت ہی ایمان افروز نشانات نظر آئے ۔ آپ کو تینوں خلافتوں کا بھرپور پیار نصیب ہوا۔ چنانچہ آپ کی بہت سی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا یہ فرمانا کہ ’’وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پیارے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے پیارے اور میرے بہت ہی پیارے تھے‘‘۔ ان کی محبت کا ایک عملی ثبوت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں