محترم ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب

ڈاکٹر سید برکات احمد صاحب نے عربی کی تعلیم دہلی اور بغداد میں پائی۔ تاریخ عرب میں بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے Ph.D. کی اور تہران یونیورسٹی سے فارسی لٹریچر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور سڈنی یونیورسٹی آسٹریلیا سے انگریزی میں M.A. کیا۔ آپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وفد کے مشیر اور عالم عرب کے متعلق خصوصی سیاسی کمیٹی سے وابستہ رہے۔ ویسٹ انڈیز میں بھارت کے ہائی کمشنر بھی مقرر ہوئے۔ دستور اور آئین سے متعلق قوانین کے ماہر وکیل تھے۔ اگرچہ پیشے کے اعتبار سے سفارتکار تھے لیکن عربی، فارسی، ترکی، جرمن، ہندی ، اردو اور انگریزی زبانوں کے ماہر اور تاریخ دان بھی تھے۔ آپ نے اسلام کے دفاع میں اور قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ کے لئے کئی کتب بھی تصنیف کیں۔ ایک کتاب ایک امریکن یونیورسٹی نے اسلامی تاریخ کے طلبہ کے لئے بھی تجویز کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے بھارت کی سپریم کورٹ میں پریکٹس شروع کی اور انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ کے فیلو اور بھارتی حکومت کی طرف سے مرکزی حج مشاورتی بورڈ کے رکن بھی مقرر ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے فیلو بھی تھے۔ 1981ء سے 1986ء تک ہندوستان ٹائمز میں مسلم ورلڈ کے عنوان سے ہر ہفتے کالم بھی لکھتے رہے۔ آپ کے ایک کالم کو جو آپ نے سپین میں مسجد بشارت کے افتتاح کے موقع پر لکھا تھا حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے بہت پسند فرماتے ہوئے آپ کو لکھا کہ ’’آپ نے ایسی حکمت کے ساتھ جماعت کی مساعی پر روشنی ڈالی تھی کہ ایک ناواقف یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مضمون کسی احمدی نے لکھا ہے اور ایک احمدی یہ نہیں چاہ سکتا کہ کاش یہ اس سے بہتر ہوتا‘‘۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ ’’مجھے آپ میں دلچسپی ہے آپ کی سپریم کورٹ کی پریکٹس میں کوئی دلچسپی نہیں، میرا بس چلے تو آپ کا ایک ایک منٹ خدمت اسلام میں مسخر کرلوں … مستشرقین کے مقابلے میں جن مصابیح کی آسمان احمدیت کو ضرورت ہے اور جن شہب کی تلاش ہے انہی میں سے ایک آپ بھی ہیں جن کی میری نظروں کو جستجو اور انتظار ہے‘‘۔
آپ کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور آپ کی تبلیغ سے ترکی کے ایک پروفیسر بھی احمدی ہوئے۔ 1983ء میں حضور انور کی کتاب ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی آپ کی خواہش کو حضور نے شرف قبولیت بخشا۔ لیکن 1984ء میں مثانے میں تکلیف ہوئی اور ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا۔ آپریشن ہوا لیکن ناکام رہا کیونکہ کینسر پھیل چکا تھا۔ امریکہ لے جایا گیا جہاں آٹھ گھنٹے کا آپریشن ہوا لیکن ناکام رہا اور ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ چار ہفتے کی زندگی باقی ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست ہوتی تو یہی جواب آتا کہ برابر دعا کر رہا ہوں۔ چنانچہ آئی ہوئی موت ٹل گئی اور علاج کے ساتھ ساتھ حضور انور کی کتاب کے ترجمہ کا کام آپ نے جاری رکھا۔ ایک موقعہ پر حضور انور نے آپ کو لکھا ’’دعا کی تحریک پر مشتمل آپ کے پرسوز و گداز خط نے خوب ہی اثر دکھایا اور آپ کے لئے نہایت عاجزانہ فقیرانہ دعا کی توفیق ملی اور ایک وقت اس دعا کے دوران ایسا آیا کہ میرے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ میں رحمت باری سے امید لگائے بیٹھا ہوں کہ یہ قبولیت کا نشان تھا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے احیائے موتیٰ کا کرشمہ دکھایا جسے امریکہ میں ڈاکٹر بھی معجزہ کا نام ہی دیتے رہے۔ کتاب کے ترجمہ کا کام ختم ہوا تو بیماری نے دوبارہ شدت پکڑ لی اور آپ کو علم ہوگیا کہ اب زندگی کا چراغ گُل ہونے کو ہے چنانچہ جون 1988ء میں نیویارک سے دہلی چلے آئے اور 31؍جولائی 1988ء کو 69 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ غائب پڑھائی اور آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ’’سید برکات احمدمعروف شخصیت ہیں ہندوستان کی، علمی لحاظ سے بھی اور کئی پہلوؤں سے۔ جماعت کے بڑے مخلص فدائی کارکن تھے۔ ان کو چند سال سے ایسا کینسر تھا جس کے متعلق ڈاکٹروں کا یہ خیال تھا کہ آج سے بہت سال پہلے فوت ہو جانا چاہئے تھا۔ جب ہندوستان میں تھے تو اس وقت انہوں نے مجھے لکھا کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ چند مہینے کی بات ہے۔ اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا تو ان کو میں نے دعا کی طرف بھی توجہ دلائی اور یہ بھی کہا کہ ڈاکٹروں کی بات نہ مانیں اللہ کی مرضی ہے۔ دعا میں بھی کرتا ہوں، آپ بھی کریں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ ان کی بہن کا بعد میں مجھے خط آیا کہ حیرت ہے کس طرح یہ بچ گئے ہیں بلکہ کام شروع کردیا ہے اور پھر کام بھی ایسا کیا کہ ’مذہب کے نام پر خون‘ کتاب کا اس بیماری میں ترجمہ شروع کیا اور وہ مکمل ہوگیا اللہ کے فضل سے، پھر اس کی نظرثانی کی، … تو علمی کام کرتے کرتے اس طرح جان دی ہے‘‘۔
حضور انور نے اس کتاب کے انگریزی ترجمہ “Murder in the name of Allah” کے تعارف میں بھی محترم ڈاکٹر صاحب کا بہت عمدہ ذکر فرمایا ہے۔ آپ کے ذکر خیر پر مشتمل یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍ستمبر 1998ء میں محترمہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں