محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جولائی 2001ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بیٹے مکرم احمد سلام صاحب کے قلم سے اپنے والد کے بارہ میں ایک انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ (از مکرم کیپٹن شمیم احمد خالد صاحب) شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے والد کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ابی سے جب بھی پوچھا جاتا کہ اُن کے کتنے بچے ہیں تو وہ جواب دیتے: کئی ہزار۔ یہ وہ بچے ہیں جن کو ابی نے دوسری امداد کے علاوہ بہت حوصلہ، توجہ اور جذبہ دیا۔
اُن کے لندن میں چند گھنٹے کے قیام کے دوران ہمارے باہمی رشتہ کی پیاس کا خاطرخواہ علاج ہونا مشکل تھا۔ جب وہ تشریف لاتے تو اُن کا اصرار ہوتا کہ ہم ایک ڈنر اکٹھا کھائیں۔ کھانے کی میز پر وہ سب سے باری باری تعلیم اور دیگر مسائل کے بارہ میں پوچھتے۔ مسائل کی جڑ تک فوراً پہنچ جاتے اور ایک لمحہ میں انہیں حل فرمادیتے۔ وہ ہمارا بہت خیال رکھتے اور ہر ممکن طریق پر ہماری مدد کرتے۔ اُن کو یقین تھا کہ وہ ہمیں تھوڑا سا وقت دے کر بھی پورا فائدہ اٹھاسکیں گے۔ دراصل انہیں تسلّی تھی کہ ہماری والدہ ہماری نہ صرف جسمانی بلکہ اخلاقی اور روحانی پرورش کا بھی پوری طرح خیال رکھ رہی ہیں۔
میری عمر چودہ سال تھی جب انہوں نے نصیحت کی: ’’دوسروں کی پرواہ مت کرو کہ وہ کیا کہیں گے، اصل بات یہ ہے کہ تم کیا سمجھتے ہو۔ اگر تم اسے درست سمجھتے ہو تو کر گزرو‘‘۔
ابی ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی حتمی رائے تھی کہ ہم والدین کی دعاؤں کے ہمہ وقت محتاج ہوتے ہیں اور وہ ہمارے بہترین خیرخواہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے نمونہ سے ہمیں بتایا کہ والدین کی خدمت اوّل فرائض میں سے ہے۔ ابی نے مجھے آداب اور شائستگی سکھائے۔ ہر مہمان کو پوری محبت اور عزت دیتے خواہ اُس کا تعلق کسی بھی طبقہ سے ہو۔
جب بھی وہ لندن آتے، مسجد ضرور جاتے لیکن نماز ادا کرتے ہی روانہ ہوجاتے۔ اگر کوئی ملنا چاہتا تو رُک کر بات کرتے لیکن پھر جلد چل پڑتے۔ انہیں گپیں لگانا اور غیبت کرنا سخت ناپسند تھا۔ کوئی لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ٹیلی ویژن دیکھنا بھی وقت کا ضیاء تھا سوائے دو مزاحیہ پروگراموں کے۔
ابی کو جلد سونا اور جلد جاگنے کا اصول بہت پسند تھا۔ اسی طرح کھانے کے دوران فون نہ لیتے۔ گہری نیند سوتے اور آنکھیں بند کرتے ہی آسانی سے سو جاتے۔ جہاں بھی وقت ملتا سو لیتے یا پھر کام کرتے۔ شاپنگ کو وقت کا ضیاع سمجھتے اور ناپسند کرتے۔ پہلے پہل سستی چیزیں خریدتے تھے لیکن پھر آپ کو احساس ہوا کہ اعلیٰ کوالٹی کی چیز پائیدار ہوتی ہے اور بار بار کی خرید میں وقت ضائع نہیں ہوتا چنانچہ لباس کے رسیا نہ ہونے کے باوجود پھر اعلیٰ سوٹ پسند کرنے لگے۔
میرے لئے کتابوں کے حصول میں کوئی حد بندی نہ تھی لیکن لازم تھا کہ کتاب کی دیکھ بھال کی جائے۔ علم سے محبت اُن کی شخصیت کا مستقل جزو تھا۔ اسلامی آرٹ، شعر و شاعری، عمارات میں گہری دلچسپی تھی۔ کام میں مصروف ہوتے تو بیک گراؤنڈ میں تلاوت سے انہیں روحانی تسکین ملتی۔
اتنی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد جب عمر کے آخری حصہ میں بیماری شدید ہوگئی تو انہوں نے بیماری کو اللہ کی مشیت سمجھ کر صبر سے برداشت کیا اور کبھی ناراضگی یا شکایت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا اُن کی زندگی کا اصول تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں