محترم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید کا خاندان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍نومبر 2008ء میں مکرم محمد عبدالماجد صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ میرے تایازاد بھائی محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب نے ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھا۔ 1948ء میں پاکستان آکر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ہدایت چاہی تو حکم ملا کہ آپ میرپورخاص سندھ چلے جائیں اور وہیں رہائش اختیار کریں۔ چنانچہ وہ حضورؓ کے پاس سے سیدھے ہی میرپورخاص چلے گئے۔ چند سال میونسپلٹی میں بطور ڈاکٹر کام کرتے رہے۔ 1950ء میں حضورؓ نے آپ کی شادی حضرت ڈاکٹرحشمت اللہ خانصاحبؓ کی بڑی صاحبزادی محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ سے کرادی۔ آپ نے اپنا ایک کلینک محلہ ڈھولن آباد میرپورخاص میں شروع کیا اور اس کا نام حضور کے نام پر فضل عمر الیکٹرو ایکسرے کلینک رکھا۔
شادی کے بعد بھائی صاحب کے خطوط آتے رہے۔ اس وقت ہم لوگ حیدرآباد دکن میں رہتے تھے اور ہر خط میں والد محترم کو اولاد کے لئے دعا کی درخواست کرتے رہتے تھے۔ آخرکار 1962ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عبدالمنان صدیقی کی ولادت ہوئی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ تھی کہ میرے بھائی صاحب بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولادتھے اور ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی بھی اپنے والدین کے اکلوتے صاحبزادے تھے۔ جب عزیزم عبدالمنان صدیقی نے انٹرنس کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا تو بھائی صاحب نے ان کو ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سندھ میڈیکل کالج کراچی میں داخل کرایا۔ اس زمانہ میں خاکسار کراچی میں رہائش پذیر تھا ۔ بھائی صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ اس بچہ کی دیکھ بھال کرتا رہوں۔ جب عزیزم عبدالمنان نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کر لیا تو بھائی صاحب نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھجوادیا۔ عزیزم نے امریکہ میں دل کے امراض کی تعلیم حاصل کرلی۔ ان کا ارادہ بھی تھا اور ان کے قریبی رشتہ داروں نے بھی یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ امریکہ میں ہی پریکٹس شروع کریں مگر میرے بھائی نے اپنے صاحبزادے کو واپس میرپور خاص آنے کی ہدایت فرمائی کیونکہ ان کی صحت گر رہی تھی اور غالباً اپنی کلینک پر پوری توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ انہیں اس نصیحت کا بھی بڑا پاس تھا جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو فرمائی تھی۔ عزیزم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی واپس میرپور خاص آ گئے اور والد محترم کے کلینک کو سنبھال لیا اور اس کو دن بدن بہتر بناتے گئے۔ چونکہ وہ دل کے امراض کے ماہر تھے اس لئے اس کلینک کو ایک معیاری ہسپتال میں تبدیل کر دیا جوطبی ضروریات کی ساری سہولتوں اور جدید آلات سے مزین تھا۔

ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید

اسی دوران عزیزم عبدالمنان صدیقی نے جماعتی ذمہ داریاں بھی سنبھال لیں۔ ان کے محترم والد کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو امیر جماعت ضلع میرپورخاص مقرر فرمایا۔ آپ اس عہدہ جلیلہ پر اپنی ذمہ داریوں کو نہایت محنت شاقہ، اخلاص اور لگن کے ساتھ احسن رنگ میں انجام دیتے رہے۔ ان کا وجود جماعت احمدیہ کے لئے اور خدمت خلق کے پہلو سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ جس عمدہ طریق پر اپنی ہر دو اہم ذمہ داریوں کو انجام دیا، یہ انہی کا حق تھا۔ ان کی بنیادی اہم صفت، ان کی ہمیشہ مسکراتی ہوئی شخصیت اور ان کی نرم ملائم طبیعت تھی۔ دوسرا خاص وصف ان کا انسانی ہمدردی اور خلق تھا۔
شہید کا جسد خاکی ہسپتال سے گھر لے جایا گیا۔ اس وقت تین ہزار سے زائد لوگ اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دلوں کے ساتھ اپنے محسن اور پیارے کے دیدار کو حاضر ہوئے تھے۔ شہر کے اکثر بڑے زمینداروں، پولیس کے افسران بالا اور وہاں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ مقامی سیاستدان اور اخباری رپورٹرز بھی آئے ہوئے تھے ۔ سندھ کے ایک اخبار کاوش نے سندھی میں عمدہ خبر کے ساتھ شہید کی تصویر بھی دی تھی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں