محترم ڈاکٹر نذیر احمد شہید آف ڈھونیکے

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍جنوری 1999ء میں محترم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب شہید کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے ہوئے مکرم میاں قمر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم ڈاکٹر صاحب شہید اپنے علاقہ میں مانے ہوئے طبیب تھے۔ لوگ دور دور سے آپ کے پاس بغرض علاج آتے اور بہت پرانی بیماریوں سے شفا پاتے۔ آپ بہت غریب پرور انسان تھے۔ ساری زندگی کسی بیوہ، یتیم، مسکین سے پیسے نہ لئے اور خصوصاً اُن مریضوں سے بھی جنہیں دیکھنے کیلئے آپ کو رات کو جانا پڑتا۔ آپ کے علاقہ کا ایک مخالف مولوی جو لوگوں کو آپ کے پاس جانے سے روکا کرتا تھا، جب اُس کی بیوی ایک رات شدید بیمار ہوئی تو اُس نے شرمندہ ہوکر آپ کے دروازہ پر دستک دی۔ آپ اُسی وقت اس کے گھر گئے اور آپ کی دوا سے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی۔ آپ اپنے قاتل کی ماں کا بھی ساری زندگی مفت علاج کرتے رہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کو جماعت سے بے پناہ محبت تھی۔ ہر جماعتی نمائندہ آپ کا مہمان ہوتا تھا۔ آپ کو دعوت الی اللہ سے عشق تھا اور اپنے ہاں ہر آنے والے کو پیغامِ حق پہنچاتے تھے۔ اس وجہ سے آپ کی مخالفت میں اضافہ ہوتا رہا، دھمکیاں بھی ملیں اور آخر یہی بات آپ کی شہادت کا باعث بنی۔
محترم ڈاکٹر صاحب سیٹلائیٹ ڈش کے ذریعے لوگوں کو خطبہ سنانے کیلئے اپنے ہاں ہر جمعہ دعوت کا اہتمام کرتے۔ جب ڈھونیکی میں نماز جمعہ کا انتظام نہ تھا تو آپ بلاناغہ ہر جمعہ چار میل کا سفر اپنے بچوں کے ہمراہ سائیکل پر طے کرکے وزیرآباد آیا کرتے تھے۔ جب سیٹلائیٹ کا نظام شروع ہوا تو شروع میں صرف گوجرانوالہ میں ہی اس کا انتظام تھا۔ تب آپ ہر جمعہ گوجرانوالہ میں پڑھا کرتے تھے۔ ہر مالی تحریک میں آپ کا شمار سرفہرست احباب میں ہوتا تھا۔
آپ کے قاتلوں نے گرفتاری کے بعد یہ بیان لکھوایا کہ آپ پر تشدد کرنے کے بعد جب آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینے پر مجبور کیا گیا تو آپ خاموش ہوگئے اور زبان پر صرف درود شریف کا ورد تھا۔ چنانچہ آپ کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں