مسمریزم کا بانی۔ فرانز میسمر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مارچ 2007ء میں مسمریزم کے بانی فرانزمیسمر کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں۔
مسمریزم کا بانی فرانز میسمر 1733ء میں پیدا ہوا۔ اس نے 1766ء میں وی آنا یونیورسٹی (آسٹریا) سے طبّ کی تعلیم مکمل کی۔ دوران تعلیم اس نے انسان پر ستاروں کے مقناطیسی اثرات کے بارہ میں ایک فاضلانہ مقالہ تحریر کیا۔ اور حصول تعلیم کے بعد اس نے تمام انسانی امراض کا علاج مقناطیس سے کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کا خیال تھا کہ مقناطیسی مادہ پوری کائنات پر حاوی ہے۔ یہ نظریہ اگرچہ اس نے 1771ء میں تیار کرلیا تھا مگر اسے عوام کے سامنے 1775ء میں ایک پمفلٹ کے ذریعہ پیش کیا۔ اس پمفلٹ کو لکھنے سے پہلے 1774ء میں اس نے اپنے نظریہ کو تجرباتی طور پر بھی پیش کیا اور ایک مریض Francisca Desterlin پر اپنے تجربات کا مظاہرہ کیا۔ یہ شخص لمبے عرصہ سے متعدد امراض کا شکار تھا۔ میسمر کے علاج سے اسے بہت افاقہ ہوا۔ جلد ہی میسمر کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی اور بظاہر ناقابل علاج امراض کے مریض دُور دُور سے اس کے پاس آنے لگے۔ لیکن وی آنا کے دوسرے ڈاکٹروں نے میسمر کے طریقۂ علاج کی مخالفت کی چنانچہ اُسے ویانا چھوڑ کر 1778ء میں پیرس جانا پڑا۔ وہاں بھی اُس نے اپنا طریقہ علاج جاری رکھا اور بہت مقبولیت حاصل کی۔ اُس نے اپنے طریقہ علاج کو Animal Magnetism یا ہپناٹزم کا نام بھی دیا مگر وہ مشہور اُس کے اپنے نام کی نسبت سے مسمریزم ہوا۔
میسمر کا طریقۂ علاج یہ تھا کہ مریض پر آہستہ آہستہ مصنوعی نیند طاری کر دیتا اور جب مریض نیند کے عالم میں خود کو اس کے حوالے کر دیتا تو وہ آہستہ آہستہ اس کے لاشعور میں یہ بات مستحکم کر دیتا کہ اس کا علاج کیا جارہا ہے۔ اس طریقۂ علاج سے متعدد ناقابل علاج امراض میں مبتلا مریض شفایاب ہوئے۔ اس پر پیرس میں بھی ڈاکٹروں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا اور اس کو کالا جادو کا ماہر مشہور کر دیا۔ 1785ء میں حکومت فرانس نے علماء فضلاء کی ایک کمیٹی بنائی۔ جس نے میسمر کے طریقہ ٔعلاج کے خلاف رپورٹ پیش کی۔ چنانچہ میسمر دل برداشتہ ہو کر پیرس سے Meers Burg چلا گیا جہاں گوشۂ گمنامی میں 5 مارچ 1815ء کو اُس کا انتقال ہو گیا۔ مگر اس کا طریقۂ علاج مشہور ہوا اور اس پر مزید تحقیق ہوئی اور آج بھی بعض لوگ اسے کامیاب طریقۂ علاج سمجھتے ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ایک بار سوال کیا گیا کہ قرآن کریم میں سحرکا لفظ استعمال ہوا ہے لیکن آپ لوگ جادو کو کیوں نہیں مانتے۔ جواباً آپؒ نے فرمایا: ’’جو قرآن نے تشریح کی ہے اس کے مطابق مانتے ہیں۔ … سحر کا لفظ قرآن کریم نے حضرت موسیٰ ؑ اور فرعون کے مقابلے کے وقت استعمال فرمایا۔ ایک طرف جادوگرتھے۔ ایک طرف حضرت موسیٰ ؑ تھے۔ جادوگروں نے رسیاں پھینکیں اور بظاہر سانپ بنا دیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ انہوںنے جادو کیا مگر کیاجادو تھا؟ فرماتا ہے سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ انہوںنے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کیا۔پھر فرماتا ہے یا وہ خیال کرنے لگے کہ وہ سانپ ہیں حالانکہ وہ رسیاں کی رسیاں ہیں۔ تو جادو کی حقیقت جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے اس کو Modern Terms میں مسمریزم کہتے ہیں۔ اَعْیُنَ النَّاس کو ایسا دھوکہ دے دینا جس کے نتیجے میں حقیقت اگرچہ وہی رہے مگر وہ تبدیل شدہ شکل میں نظر آئے۔ یہ ہے قرآن کریم میں مبینہ جادو۔ دنیا کا کوئی احمدی اس جادو کا انکار نہیں کرتا۔ لیکن جہاں ٹونے ٹوٹکے اور قسم کے ہیں۔ ان کا قرآن سے ثبوت ہی نہیں ملتا۔ ہم ان کو کیوں تسلیم کریں گے!‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں