حاصل مطالعہ (مسیحؑ بلادِشرقیہ میں + بنگال کے متعلق ایک پیشگوئی)

حاصل مطالعہ

فرخ سلطان محمود

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2014ء)

آج کے کالم میں ’’مضامینِ شاکر‘‘ سے ایک تحریر بھی ہدیۂ قارئین ہے:
مسیحؑ بلادِشرقیہ میں
جب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خداتعالیٰ سے خبر پاکر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کی خبردی تو پرانی ڈگر کے لوگوں نے طوفانِ مخالفت اُٹھایا کہ یہ نیاعقیدہ جمہورمسلمین کے خلاف گھڑلیاہے۔ مگر حضور علیہ السلام نے قرآن مجید، حدیث شریف، کتبِ أئِمہّ دین ،کتب تاریخ اورکتب طب سے روز روشن کی طرح ثابت کردیاکہ حضرت عیسیٰؑ وفات پاچکے ہیں ۔
حضورعلیہ السلام نے اپنی لاجواب تصنیف ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘ (جوحضورؑکی وفات کے بعد شائع ہوئی) میں ثابت کردیاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعہ ٔ صلیب کے بعد تندرست ہوکروہاں سے خدائی حکم کے ماتحت بنی اسرائیل کے دُورافتادہ قبیلوں کوپیغامِ حق پہنچانے کے لئے ہجرت کرکے مختلف ممالک کی سیاحت فرماتے ہوئے آخرمیں ہندوستان آئے اورسرینگر کشمیر میں دفن ہوئے۔ اس مسئلہ پر دومزیدحوالے پیش ہیں جن سے حضرت عیسیٰ ؑ کے ورُودِہندکی سند ملتی ہے
(ترجمہ):وٹیکن لائبریری میں چالیس پچاس کتب ایسی ہیں جویہ کہتی ہیں کہ جوانی میں یسوع ہندوستان گیا اور اپنی بعض تعلیمات ہندوستانی منبعوں سے اخذکیں۔
(World History by Hays, Wayward and Moon /Macmillan)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فلسطین میں یہودِ نامسعود کے ہاتھوں سخت تکالیف پہنچیں مگر اُس کے بعد خداتعالیٰ نے اُن کوایک نہایت ہی سرسبز پہاڑی علاقہ میں پناہ دی۔ وَاوَیْنٰھُماَاِلیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرََاٰر ٍوَّمَعِیْن۔ کشمیر اورافغانستان میں بنی اسرائیل کے قبائل آباد تھے جوحضرت عیسیٰ ؑ پرایمان لے آئے۔ جغرافیائی طور پر بھی دیکھا جائے تو فلسطین اورکشمیرمیں بے شمار مماثلتیں موجودہیں جن کااعادہ یہاں ضروری نہیں ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ کے ایک جج مسٹرولیم او ڈگلس ہیں۔ 1950ء سے وہ مختلف ایشیائی ممالک کی سیاحت کررہے ہیں اوراپنے تأثرات کومختلف کتب میں نہایت شُستہ انگریزی میں شائع کررہے ہیں ۔اُن میں سے ایک کتابBeyond the Himalayas میں لدّاخ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ایک مشتبہ روایت یسوع کے متعلق بھی ہے۔ اب تک یہاں پر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جویہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یسوع اس جگہ پرآیا تھا۔ چودہ برس کی عمرمیں وہ یہاں آیا اور 28برس کی عمرمیں واپس گیا۔یہاں سے سیدھا مغرب کی طرف گیااورپھرکسی نے اُس کی خبرنہ سُنی ۔ روایت میں تفصیلات بھی موجودہیں جوبتاتی ہیں کہ یسوع نے ہمیسؔ ( لداخ سے اوپر بُدھوں کی ایک مشہور خانقاہ) کی طرف عیسیٰ کے نام سے سفر اختیار کیا۔ (صفحہ 152)
چُونکہ مصنف کے عقیدہ کے خلاف یہ بات ثابت ہورہی ہے ۔ اس واسطے اُس نے بجاطورپراسے ’’مشتبہ‘‘ قرار دیا ہے اورلداخیوں کا یہ خیال کہ پھرحضرت عیسیٰ کی کوئی خبرنہ سُنی گئی بھی درست ہے کیونکہ اگرہم کوئی اچھی سی اٹلس لے کر دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ لداخ سے سرینگر ہوائی جہاز کی اُڑان میں پورے چار سو میل ہے ۔اس زمانہ میں جبکہ سفرکی سہولتیں میّسرہیں یہ سفرسخت مشکل ہے تواُس زمانہ میں پھرکس نے خبردینی تھی ۔

بنگال کے متعلق ایک پیشگوئی
لارڈکرزن وائسرائے ہند نے 1950ء میں بنگال کومشرقی اورمغربی دوصوبوں میں تقسیم کر دیا۔ جس پر ہندو بنگالیوں نے ہندوستان کے طول وعرض میں پریس اورپلیٹ فارم سے مخالفت کی آگ بھڑکائی۔ مگر لارڈ کرزن بھلا کوئی ماننے والی آسامی تھے! اُدھر برطانیہ کے مشہوروزیرخارجہ سرایڈور ڈگرے نے اس کوA settled factکہہ کرختم کردیا۔ کسی شاعر نے اُس زمانہ میں کیاخوب شعراسی بارہ میں کہا تھا ؎

خوب جی بھر کے ’’سرایڈورڈگرے‘‘ دیکھ چکے
ہم غریبوں کے سیہ خانے کا ویراں ہونا

مگرخداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبذریعہ الہام خبردی کہ ’’پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا۔ اب ان کی دلجوئی ہوگی‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 589)
یہ الہام 11 فروری 1909ء کو ہوا۔اُن دنوں لارڈ منٹو وائسرائے تھے ۔ 1910ء میں وہ چلے گئے۔ بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کابھی انتقال ہوگیا تو 12؍دسمبر 1911ء کوشاہ جارج پنجم نے دہلی میں ایک عظیم الشان دربارمنعقدکیا۔اوراپنی زبان خاص سے بنگال کی تقسیم کومنسوخ قراردیا۔چنانچہ جارج پنجم کاایک سوانح نگارلکھتاہے : ’’دربارکے خاتمہ پرجب وائسرائے اپنی تقریر ختم کرچکے تھے۔ توبادشاہ سلامت خود اٹھے۔ جس پرسبھی حیران ہوئے،اورنہایت واضح الفاظ میں اعلان کیاکہ تقسیم بنگال کومنسوخ کیا جاتا ہے‘‘۔
(King George V, His Life & Reign by Harold Nicholson. p. 168)
غورفرمائیں کہ سیدناحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی؟ یوں کوئی کہتا پھرے کہ آخرمرزاصاحب ؑنے کیامعجزہ دکھایا۔ چشمِ بصیرت رکھنے والوں کے لئے تو بے شمارنشان ہیں۔ مگر تعصب کی نظر رکھنے والوں کاکیاعلاج؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں