منارۃالمسیح قادیان

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مارچ 1999ء میں منارۃالمسیح قادیان کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون مکرم محمد جاوید صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔

منارۃالمسیح قادیان

بعض پیشگوئیوں کو ظاہری شکل میں پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودؑـ نے 13؍مارچ 1903ء کو منارۃالمسیح کا سنگ بنیاد رکھا۔ اگرچہ حضور کی خواہش ایسا کرنے کی بہت پہلے سے تھی لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ 28؍مئی 1900ء کے اشتہار سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے حضور کو تحریک ہوئی کہ مسجد اقصیٰ قادیان میں ایک سفید منارہ تعمیر کیا جائے اور یہ خبر بھی دی گئی کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ سے اس منارہ کی تعمیر کا گہرا تعلق ہے۔ اس منارہ کے لئے دس ہزار روپے اخراجات کی ضرورت تھی۔ چنانچہ حضور نے جماعت کو رقوم پیش کرنے کی تحریک فرمائی اور اس منارہ کی تین اغراض بھی بیان فرمائیں یعنی اذان دینے کے لئے (اس طرح خدا کا پاک نام یہاں سے بلند ہو)، پھر اس پر لالٹین نصب کی جائے تاکہ روشنی دور سے نظر آئے اور اس پر گھنٹہ نصب کیا جائے تاکہ لوگ اپنے وقت کو پہچانیں اور وقت شناسی کی طرف توجہ پیدا ہو۔

جماعت کی حالت اس وقت بہت غربت کی تھی۔ اس لئے حضورؑ نے ایک سو ایک خدام کی فہرست شائع کرتے ہوئے انہیں کم از کم ایک ایک سو روپیہ دینے کی تحریک فرمائی اور فیصلہ کیا کہ اس پر لبیک کہنے والوں کے نام منار پر بطور یادگار کندہ کرائے جائیں گے۔ منارہ کے لئے نقشہ نویسی اور اینٹوں کی تیاری کا کام 1901ء کے آخر تک پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ نقشہ اور تخمینہ سید عبدالرشید صاحب نے بنایا اور اینٹوں کے لئے زمین میاں امام دین صاحب قادیانی نے دی۔ 1901ء کے آخر میں طاعون کی وبا پھیل جانے سے کا م التواء کا شکار ہوگیا اور آخر 13؍مارچ 1903ء بروز جمعہ اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور حضورعلیہ السلام نے اینٹ کو ران پر رکھ کر لمبی دعا کی اور اینٹ پر دم کیا اور وہ اینٹ حضرت فضل الدین صاحبؓ احمدی معمار نے بنیاد کے مغربی حصہ میں پیوست کردی۔ منارہ کی بنیاد بہت گہری، وسیع و عریض اور کنکریٹ کے ذریعہ مضبوط کرکے اٹھائی گئی۔
مالی مشکلات پھر حائل ہوئیں اور اپریل 1905ء میں حضور نے مخلصینِ جماعت کو چندہ خاص کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت پانچ ہزار روپیہ کی ضرورت ہے اور اگر پانچ ہزار دوست ایک ایک روپیہ دیں تو یہ رقم جمع ہوسکتی ہے۔ … لیکن مالی تنگی کے باعث تعمیر کا کام آگے نہ بڑھ سکا اور حضورـ کی زندگی میں منارہ کی عمارت مسجد کے صحن کی سطح سے چھ فٹ سے زیادہ بلند نہ ہوسکی۔
خلافتِ اولیٰ کے دور میں بھی اس پر کوئی اضافہ نہ ہوسکا لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی خلافت کے پہلے ہی سال 27؍نومبر 1914ء کو منارہ کی ناتمام عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کرادیا اور تعمیر کی نگرانی کے فرائض قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی نے سرانجام دیئے۔ اجمیر شریف سے بہترین سنگ مرمر مہیا کیا گیا اور دسمبر 1915ء میں یہ منارہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ خوبصورتی و دلکشی کا یہ اعلیٰ نمونہ ایک سو پانچ فٹ اونچا ہے۔ اس کی تین منزلیں، ایک گنبد اور بانوے سیڑھیاں ہیں۔ اس کی تعمیر پر (اوّلین بنیادی اخراجات کو چھوڑ کر) 5963؍روپے خرچ ہوئے۔ اس پر 298 مخلصین کے نام کندہ ہیں جنہوں نے ایک ایک سو روپے چندہ دیا۔ بعد ازاں اس پر گھڑیال اور بجلی کے قمقمے نصب کئے گئے۔ 16؍فروری 1923ء کو منارہ پر گیس کے ھنڈے نصب کئے گئے جو نائیجیریا کے مخلص احمدیوں کی رقم سے خریدے گئے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں