مکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 29 اپریل 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍جولائی 2013ء میں مکرمہ ط۔محمود صاحبہ کے قلم سے اُن کی والدہ محترمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ یکم ستمبر 1931ء کو ڈلہوزی میں پیدا ہوئیں اور 8؍اپریل 2012ء کو لندن میں انہوں نے وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور بعد نماز جمعہ نماز جنازہ حاضر پڑھائی۔ مرحومہ آٹھویں حصے کی موصیہ تھیں۔ جنازہ پاکستان لے جایا گیا اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ آپ وفات سے آٹھ ماہ پہلے ہی انگلستان آئی تھیں۔
محترمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ لجنہ میں مسلسل خدمات بجالاتی رہیں۔ بیس سال سے زائد عرصے تک صدر لجنہ اماءاللہ کوئٹہ رہیں۔ پردے کی پابند تھیں اور دوسروں کو بھی دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔1992ء میں اپنے شوہر کی ٹرانسفر ہونے پر لاہور آگئیں اور یہاں بھی مختلف حلقوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ صدر حلقہ کے طور پر بھی خدمت بجالاتی رہیں۔ دعوت الی اللہ کا بہت جوش تھا۔ چنانچہ جب اپنے بچوں کے پاس لندن آئیں تو تبلیغ کرنے کے لیے انگریزی بولنی سیکھی اور بہت تھوڑی مدّت میں اتنی اچھی بولنے لگیں کہ حیرت ہوتی تھی۔
آپ سے پہلے آپ کی والدہ کے ہاں پیدا ہونے والے کئی بچے کم سنی میں ہی فوت ہوجاتے رہے۔ آپ کی والدہ ایک نیک، دعاگو اور خدمت دین کے لیے ہمہ وقت حاضر رہنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعاؤں کو سنا اور خاص دعا اور بشارت کے نتیجے میں مکرمہ امۃالحفیظ خانم صاحبہ پیدا ہوئیں۔ آپ کا رجحان بچپن سے ہی نیکی کی طرف تھا۔ قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا اور کئی سپارے حفظ کیے تھے۔ بہت دعاگو تھیں۔ بہت سی بچیوں کے رشتوں کے لیے سو سو نوافل ادا کرتیں۔ دل بہت صاف تھا۔ کسی کے خلاف کینہ یا غصہ دل میں نہیں رہتا تھا۔ غریب پرور تھیں اور صدقات کثرت سے دیتیں۔ کوئٹہ میں رہتی تھیں تو یہ طریق تھا کہ بہت سی فقیر عورتوں اور بچوں کے لیے گھر میں تنوری روٹی اور چائے کے ناشتے کا انتظام کرتیں اور اُن کی عزّتِ نفس کا بھی خیال رکھتیں۔ جانوروں اور پرندوں کا بھی خیال رکھتیں۔ مہمان نواز بھی بہت تھیں۔ وسیع حلقہ احباب تھا۔ خود بھی باقاعدہ روزے رکھتیں اور کئی مستحقین کی سحری و افطاری کا بھی اہتمام کرتیں۔کئی سال کوئٹہ میں اور پھر ربوہ میں اعتکاف بیٹھتی رہیں۔ کثرت سے نفلی روزے بھی رکھتیں۔
مرحومہ کو خداتعالیٰ نے چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ آپ نے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ اسی مقصد کے لیے 1974ء میں بچوں کو ساتھ لے کر ربوہ آبسیں جبکہ آپ کے شوہر بسلسلہ ملازمت لاہور میں مقیم تھے۔
آپ نے زندگی میں غم بھی بہت دیکھے۔ کم عمری میں ہی والدہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا تو دو چھوٹے بھائیوں کی بھی پرورش کی۔ 2003ء میں شوہر محترم شمس الحق خان صاحب کی وفات ہوئی اور دو سال بعد جواں سال بیٹے مکرم ڈاکٹر مبین الحق خان صاحب کی وفات کا گہرا صدمہ برداشت کیا لیکن کبھی آہ و بکا نہیں کی اور بے صبری کا کلمہ منہ سے نہ نکالا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں