مکرم احسان احمد خان صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 3 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب کا ذکرخیر اُن کی کزن مکرمہ طیبہ نصیر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی دیانت خان صاحبؓ (آف ضلع کانگڑہ)نے اس خاندان میں احمدیت کی بنیاد رکھی۔ مکرم احسان احمد خان صاحب شہیداپنے والدین کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ بوقت شہادت عمر 26 سال تھی۔ اپنے والدین کے بہت تابعدار اور چھوٹے بہن بھائیوں کا بہت احساس کرنے والے تھے۔ تنخواہ ملتی تو ساری اپنے والد کے ہاتھ پر رکھ کر کہتے کہ چندہ دے کر باقی خرچ کرلیں۔ روزانہ رات کو اپنے والد کے پاؤں دباکر سوتے۔
صدقات بھی دیتے اور یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتے۔ بہت اعلیٰ اخلاق تھے۔ ایک رات پریشانی میں بتایا کہ ایک ہزار روپے کسی کے زیادہ آگئے ہیں۔ صبح اُٹھ کر کہا کہ شکر ہے یاد آگئے۔ پھر جاکر اُس کو واپس کرکے آئے۔ وہ شخص حیرانی سے کہنے لگا کہ مجھے آج تک ایسا انسان نہیں ملا جو پیسے واپس کردے۔
شہادت سے پہلے والا جمعہ ادا نہ کرسکے کیونکہ کسی کو ہسپتال لے کر جانا تھا۔ اس پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ جمعہ کی نماز کارپارک میں پڑھنی پڑی تھی۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ انہیں کبھی غصہ میں نہیں دیکھا، کبھی سخت لہجے میں بات نہیں کرتے تھے۔ اپنی بیٹی کی اچھی تربیت کی بہت فکر تھی۔ ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا کہا کرتے۔ مسجد پر حملے کے بعد فون کرکے امی سے بھی یہی کہا کہ سب کا خیال رکھیں خصوصاً ابو کا بہت خیال رکھیں اور میری بیٹی کی بہت اچھی تربیت کریں۔
شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے قبل دو خواب دیکھے تھے جو بعینہٖ آپ کی شہادت کے ساتھ پورے ہوئے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شہید مرحوم کے لواحقین سے بذریعہ فون تعزیت فرمائی تو شہید مرحوم کی اہلیہ سے یہ بھی فرمایا کہ پہلے بھی آپ نے اپنے بہنوئی کی شہادت پر بڑا صبر دکھایا تھا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سانحہ لاہور سے دو سال قبل شہید مرحوم کی اہلیہ کی بڑی بہن کے میاں کو بھی کراچی میں شہید کردیا گیا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں