مکرم انور حسین ابڑوصاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
آپ مولوی محمد انورصاحب ابڑو اور محترمہ جنت خاتون صاحبہ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کا تعلق ایک ایسے معروف علمی گھرانہ سے تھا جس کو سندھ میں اپنے علاقے میں تعلیم پھیلانے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ اسی لیے آپ کے گھرانے کو استاد گھرانہ کہہ کر تعظیم دی جاتی تھی۔ آپ کے دادا محترم مولوی عبدالرؤوف صاحب ابڑو 1947ء میں اپنی اولاد، عزیز و اقارب اور شاگردوں سمیت بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ ایک استاد کے علاوہ ابڑو خاندان کے آپ بڑے پگدار بھی تھے۔ (سندھی اصطلاح میں پگدار بڑے رئیس کو کہا جاتاہے۔) اُن کی وفات 1948ء میں ہوئی جس کے بعد مکرم مولوی محمد انور صاحب نے دیگر احمدیوں کے ساتھ مل کر تمام مخالفتوں کا بھرپور استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔
19؍ دسمبر1994ء کی شام رینجرز کی وردی میں ملبوس 7؍افراد انورآباد آئے جن کے پاس لائٹ مشین گن اور کلاشنکوف رائفلیں تھیں۔ انہوں نے مولوی محمد انور صاحب ابڑو کے مکان میں گھس کر وہاں موجود عورتوں سے کہا کہ ہم کرنل کے حکم سے خطرناک ڈاکوؤں کی تلاش میں آئے ہیں۔ تلاشی کے دوران انہوں نے مولوی صاحب کے بارہ میںپوچھا۔ عورتوں نے جواب دیا کہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ جب تلاشی کے باوجود کوئی مرد نظر نہ آیا تو انہوں نے مسجد میں جاکر مکرم انور حسین صاحب ابڑو کو جو سنّتوں کے بعد نفل ادا کر رہے تھے اور سجدہ میں تھے، اُسی حالت میں انہیں اٹھایا اور کہا کہ تمہیں کرنل نے بلایا ہے۔ مسجد سے ہی ظہور احمد ابڑو صاحب اور مکرم ناصر احمد ابڑو صاحب کو بھی پکڑا اور تینوں کو گھر لے آئے۔ عطاء المومن ابڑو پہلے ہی اُن کے قبضہ میں تھے۔ اس کے بعد وہ مَردوں کو ایک لائن میں کھڑا کرکے کہنے لگے کہ کلمہ سناؤ۔ جب سب نے کلمہ پڑھا تو مُلّانوں کے بھیجے ہوئے یہ بدقماش مغلّظات بکنے لگے کہ تم مسلمان نہیں کچھ اَور ہو، تم صرف ظاہراً یہ کلمہ پڑھتے ہو۔ ڈاکو مکرم انور حسین ابڑو صاحب اور اُن کے بیٹے ظہور پر تشدّد کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے مرشد کو گالیاں دو۔ اُن نے انکار پر اُنہوں نے شہید کی گردن کے ساتھ بندوق کی نالی لگاکرکہا کہ گالیاں دو ورنہ تمہیں ماردیں گے۔ شہید مرحوم اگرچہ طبعی طور پر کمزور تھے مگر آدھ گھنٹے تک ان درندوں کے سامنے عظیم الشان استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے اور کسی ایک لمحہ کے لیے بھی ایمان نہ ڈگمگایا۔ اس دوران خواتین نے بھی بڑی بہادری کا ثبوت دیا۔ کسی عورت نے ان کی منّتیں نہیں کیں، واسطہ نہیں ڈالا اور سندھی دستور کے مطابق قدموں میں دوپٹہ نہیں ڈالا۔ اس کے بعد یہ غنڈے انہیں مارتے ہوئے باہر لے گئے اور گاؤں کے لوگوں کو مخاطب ہوکر کہا کہ آج اسلام اور قادیانیت کا مقابلہ ہے۔ دیکھو ہم انہیں کیسے مارتے ہیں اور چاروں کو گاؤں کے باہر موجود کنویں پر لے آئے۔ پھر ناصر احمد ابڑو کو ایک طرف کرکے مکرم ظہور احمد ابڑو ابن انور حسین صاحب ابڑو پر فائر کیا جو کہ نہر کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے اور فائر لگتے ہی وہ پھسلے اور نہر میں گر گئے۔ ایک گولی ان کے دائیں کندھے میں لگ کر بائیں طرف سے سوراخ کرتی ہوئی نکل گئی۔ اس کے بعد مکرم انور حسین صاحب پر گولیاں برسائیں۔ ایک گولی ان کے سر پر لگی۔ شرپسندوں کے جانے کے بعد دونوں باپ بیٹے کو وارہ لے جایا جارہا تھا کہ مکرم انور حسین ابڑو صاحب نے راستہ ہی میں دم توڑ دیا۔ ان کا بیٹا ظہور احمد بچ گیا۔ شہید مرحوم نے چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے پسماندگان میں چھوڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں