مکرم جواد کریم صاحب شہید

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 4مارچ 2022ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍جون 2013ء میں مکرم جواد کریم صاحب کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مکرم جواد کریم صاحب جو مکرم کریم احمد دہلوی صاحب مرحوم کے بیٹے تھے اور گرین ٹاؤن ضلع لاہور میں رہتے تھے۔ 17؍جون 2013ء کو چار نا معلوم افرادنے ان کے گھر کے اندر گھس کر فائرنگ کر کے ان کو شہید کر دیا۔ یہ مکان کی اوپر کی منزل میں رہائش پذیر تھے اور نچلی منزل میں ان کے بڑے بھائی امتیاز عدنان صاحب اور والدہ بھی رہتی تھیں۔ رات تقریباً آٹھ بجے چار نامعلوم افراد آئے۔ دوباہر کھڑے رہے اور دو اندر گیراج میں چلے گئے اور وہاں شاید انہوں نے کریم صاحب کو بلایا۔ بہر حال گیراج والوں کے ساتھ ان کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ اسی اثناء میں ایک حملہ آور نے ان پر فائر کیا، گولی دل پر لگی اور آر پار ہو گئی۔ شور سن کے ان کے بھائی بھی باہر نکلے تو حملہ آوروں نے ہوائی فائر کیا اور یہ کہتے ہوئے فرار ہوگئے کہ اب تمہاری باری ہے۔ مکرم جواد کریم صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا لیکن راستے میں ہی انہوں نے جامِ شہادت نوش فرما لیا۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑنانا حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ آف بلوگڑ دہلی کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اگرچہ شہید کے پڑدادا اعجاز حسین صاحب مرحوم نے بھی خط کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرلی تھی لیکن دستی بیعت کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔ ان کے دادا مکرم بابو نذیر احمد صاحب دہلی میں لمبا عرصہ امیر جماعت رہے ہیں۔ شہید مرحوم کی عمر 33 سال تھی۔ وصیت کے بابرکت نظام میں شامل تھے۔ اپنا کاروبار کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ ڈاکٹر ہیں، ان کا اپنا کلینک ہے۔ کلینک کے انتظامی معاملات بھی شہید مرحوم کے ہی سپرد تھے۔ انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ چھوٹوں بڑوں کا ادب کرنے کا ان میں خاص امتیاز تھا۔ مخلص انسان تھے۔ ہر کسی سے تعاون کرتے اور ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ ان کا گھر لمبے عرصے تک نماز سینٹر بھی رہا۔ زعیم حلقہ بھی رہے اور پھر مقامی طور پر اور ضلع میں بھی خدام الاحمدیہ کا کام کرتے رہے۔ والدہ مرحومہ نے شہادت کے دن ذکر کیا کہ جواد کریم نے اپنا ایک خواب مجھے سنایا تھا کہ چند لوگ مجھے مار رہے ہیں اور بڑا بھائی میرے پاس کھڑا ہے، مجھے نہیں بچاتا۔ تو موقع پر بھی اس طرح ہی ہوا کہ جب ان پر فائرنگ ہو رہی تھی بڑا بھائی باہر نکلا اور بچا نہیں سکا۔ ایک لحاظ سے اس طرح بھی خواب پوری ہو گئی۔
چندے کے معاملے میں بھی بہت کھلے دل کے تھے اور دوسروں کو بھی تحریک کیا کرتے تھے۔ اپنے بھائی کو شہادت سے ایک دن قبل کہا کہ یاد رکھو کہ اگر مَیں فوت ہو جاؤں تو میرا حساب کتاب صاف ہے اور میں بقایا دار نہیں ہوں۔
صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ ہمارے حلقے کے ایک ممبر جو چندے کی ادائیگی میں ذرا سست تھے، شہید مرحوم نے مسلسل ان سے رابطہ رکھا اور نہ صرف ان کو چندے کے معاملے میں چست کیا بلکہ نظامِ وصیت میں بھی شامل کروایا۔
شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ تین چھوٹے بچے ہیں، بیٹی ھبۃ الجوادچھ سال، طلحہ جواد تین سال اور صفوان جواد چار ماہ کا ہے۔ ان کے ایک بھائی ہیں۔
شہادت کے وقت ان کی والدہ رضیہ کریم صاحبہ زندہ تھیں لیکن تدفین کے لیے جب ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا تو پیچھے سے والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اُن کی بھی وفات ہوگئی۔ مکرمہ رضیہ کریم دہلوی صاحبہ کے والد محترم حکیم محمد احمد دہلوی صاحب مرحوم دہلی سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ 1947ء میں ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ پہلے یہ گھرانہ خانیوال میں رہا، پھر ان کی شادی ہوئی تو یہ لاہور آگئیں۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ سکول کی ہیڈمسٹرس کے طور پر ریٹائر ہوئی تھیں۔ اپنے حلقے کی سیکرٹری اصلاح و ارشاد بھی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے لانے میں ان کا بہت ہاتھ تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں