مکرم حافظ عبدالرشید صاحب آف ننکانہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اکتوبر 2003ء میں مکرم سعید احمد اظہر صاحب شاہد کے قلم سے مکرم حافظ عبدالرشید صاحب آف ننکانہ کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔مکرم حافظ عبدالرشید صاحب 15؍اگست 2003ء کو ربوہ میں وفات پاگئے۔ آپ موصی تھے اور تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔
آپ کپورتھلہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی کسی بیماری کی وجہ سے آپ کی بینائی جاتی رہی لیکن ذہین تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ میں قرآن کریم حفظ کرلیا پھر اپنے گاؤں اور قریبی دیہات میں قل پڑھنے اور اسی طرح کے دیگر کاموں میں لگے رہے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں آگئے اور ایک مسجد میں امام اور خطیب کے طور پر ملازم ہوگئے۔ ایک روز ایک دوسرے مولوی صاحب کے ساتھ ٹرین میں لاہور جا رہے تھے کہ دو پادریوں سے آپ کی بحث ہوگئی۔ پادری نے سوال کیا کہ جب آپ قرآن کھولتے ہیں تو آپ کو کیسے علم ہوگا کہ کوئی آیت منسوخ ہوچکی ہے اور اس طرح ایمان کی بنیاد ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔ یہ سوال سن کر آپ پریشان ہوگئے اور پادری کو کہا کہ ہم تحقیق کرکے آپ کو جواب دیں گے۔ چنانچہ لاہور پہنچ کر آپ کئی مساجد میں گئے اور وہاں کے علماء سے یہ سوال کیا لیکن سب نے ٹال دیا۔ اس پر آپ نے اپنے استاد کی طرف رجوع کیا۔ لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ بعض آیات منسوخ ہیں۔ آپ نے حسرت سے کہا کہ کاش ہمارا یہ عقیدہ ہوتا کہ کوئی آیت بھی منسوخ نہیں۔ اس پر آپ کے استاد نے بتایا کہ یہ عقیدہ مرزائیوں کا ہے۔ اس پر آپ نے سوچا کہ ہوسکتا ہے دیگر اختلافی مسائل میں بھی مرزائی حق پر ہوں۔ چنانچہ ننکانہ صاحب پہنچ کر وہاں کے امیر جماعت مکرم ملک محمد شفیع صاحب سے رابطہ کیا اور پھر روزانہ عصر کے بعد وہاں جاکر اختلافی مسائل پر تحقیق کرنے لگے۔ کچھ ہی عرصہ میں صداقت کھل گئی اور آپ نے احمدیت قبول کرلی۔
جب گھر میں علم ہوا تو بہت مخالفت ہوئی حتیٰ کہ گھر کے برآمدہ میں ایک ستون کے ساتھ رسّی سے باندھ دیا اور روٹی پانی بند کردیا۔ صرف قضائے حاجت کے لئے کھولتے۔ تین چار دن بعد جمعہ کے روز آپ کے والد اور چچا آپ کو رسّی سے باندھ کر ایک مسجد میں لے گئے اور کہا کہ منبر پر چڑھ کر توبہ کرو۔ آپ نے منبر پر چڑھ کر وفات مسیح پر تقریر شروع کردی۔ اس پر والد اور چچا نے آپ کو مارنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں خطیب بھی مسجد میں پہنچا تو حالات کا علم ہوکر اُس نے حافظ صاحب سے چند سوالات کئے تو آپ نے اُسے لاجواب کردیا۔ اس پر اُس نے کہا کہ آپ کے دل پر مہر لگ گئی ہے۔ چنانچہ مار پیٹ کر آپ کو چھوڑ دیا گیا۔ کچھ دور احمدیہ مسجد تھی۔ احمدی نوجوان بعد میں آپ کو اپنے ہمراہ لے گئے اور پھر آپ کو رہنے کے لئے مسجد میں ہی جگہ دیدی گئی۔ کبھی کبھی آپ کے والد اور چچا کسی پیر فقیر یا مولوی کو لے کر آتے تاکہ آپ کا علاج کروائیں۔ سب یہی کہتے کہ چند منٹ میں آپ کو ٹھیک کردیں گے لیکن چند منٹ میں ہی لاجواب ہوکر وہ اپنی راہ لیتے۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ جو اُس وقت ناظم ارشاد وقف جدید تھے، انہوں نے مکرم حافظ صاحب کو معلّم وقف جدید لگادیا۔ بعد میں آپ معلّم اصلاح و ارشاد کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ فارغ ہونے کے بعد پھر سالہاسال ننکانہ صاحب کی احمدیہ مسجد میں مقیم رہے۔ آپ نے پچاس سال سے زائد عرصہ نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے کی سعادت بھی حاصل کی۔ آپ کو سلسلہ کی کتب سننے کا بھی بہت شوق تھا۔ ہر نئی کتاب کو خریدتے اور کسی سے پڑھواکر سنتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی کئی عبارتیں آپ کو حفظ تھیں۔ آپ زبردست داعی الی اللہ تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں