مکرم حافظ محمد یار صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2011ء میں مکرم واحداللہ جاوید صاحب کے قلم سے ایک صوفی بزرگ کی قبول احمدیت کی داستان شائع ہوئی ہے جس نے اپنے آسمانی آقا کے حکم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے امام وقت کی آواز پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کی۔
15 جنوری 1978ء کو سردیوں کی ایک دوپہر کو ایک ملنگ نما صوفی ایک لمبا چوغہ زیب تن کئے، سر پر پگڑ، شانے پر چادر ہاتھ میں تسبیح چہرہ چمکتا ہوا سفید اور نورانی، دکھی دل سے گولبازار بوہ سے گزرتا ہوا لاری اڈہ کی طرف گامزن تھا، آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب جس کا ضبط محال تھا۔
مکرم راجہ نذیر احمد ظفرصاحب نے جب دیکھا تو السلام علیکم کے بعد تعارف کی غرض سے احوال دریافت کیا تو نہایت دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔ آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ انہوں نے بتایا کہ میں شہر عبدالحکیم ضلع ملتان کے قریب آباد ہوں اور میرا نام حافظ محمد یار ہے۔ میں ایک گدی نشین کا خلیفہ اور خود پیر ہوں۔ دین کی حالت دیکھ کر میں اللہ کے حضور روتا رہا ایک دن اپنی یہ ساری حالت زار اللہ کے حضور رکھ دی اور مدد چاہی۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مجھ مضطر کی دعا سنی بلکہ اس ذرہ خاک سے ہمکلام ہوا اور فرمایا کہ میرے بندے ناصر سے جاکر ملو جو ربوہ میں ہے۔
فرط جذبات میں اہل خانہ کو بھی یہ بات بتادی۔ دن چڑھے پہلا کام یہ کیا کہ گدّی نشین کے پاس جاکر تمام واقعہ بیان کردیا۔ خیال تو تھا کہ ان کی بھی آنکھیں کھل جائیں گی مگر انہوں نے فوراً بغیر سوچے اس سارے معاملے کو شیطانی قرار دے دیا۔ جب انہیں پتہ لگ گیا کہ ان کی باتوں کا اثر مجھ پر نہیں ہوسکتا تو انہوں نے روایتی طریقہ اپنایا اور دھمکی دیتے ہوئے کمرہ سے باہر نکل گئے۔ جاتے جاتے دروازہ باہر سے بند کرگئے۔ باہر سے کنڈی لگ گئی تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ مجھے یہاں سے نکال۔ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے وسیلہ بنایا۔ اس نے دروازہ کھولا تو وہاں مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا کہ وہ تو دو نفل ادا کرنے آیا تھا۔ مَیں نے کہا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے تمہیں بھیجا ہے۔ پھر مَیں ٹرین پر سوار ہوکر ربوہ پہنچا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃالمسیح الثالثؒ) سے ملاقات کرنی تھی مگر منتظمین نے جمعرات تک انتظار کرنے کو کہا ہے۔ آج اتوار ہے اور میں واپس جارہا ہوں۔ سخت صدمہ ہے اور سر میں شدید درد ہے۔
اُن کی ساری بات سن کر راجہ نذیر احمد صاحب نے ان کو سردرد کی دوادی۔ پھر کوشش کی اور آخرکار خوشخبری سنائی کہ آپ کی ملاقات کا بندوبست ہوگیا ہے۔ یہ حسین ملاقات بعداز نماز عصر مسجد مبارک میں ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشریف لائے تو حافظ صاحب کو اگلی صفوں میں دیکھ کر مسکرا دیئے۔ حافظ صاحب اکثر یاد کرکے کہا کرتے تھے کہ وہ ملاقات ان کا سرمایۂ حیات تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے حافظ محمد یار صاحب کی دستی بیعت لی۔ پھر دفتر کے کارکن کو ارشاد فرمایا کہ اِن کو نیا لباس پہنا کر رخصت کرنا ہے۔ چنانچہ یہ سعادت راجہ نذیر احمد صاحب کے حصے آئی۔ درزی نے رات گیارہ بجے یہ لباس تیار کیا۔ شلوار قمیص اور دستار، خلافت احمدیہ کی طرف سے پہلا تحفہ تھا۔ کچھ عرصہ بعد جائے نماز، کپڑے اور تسبیح اپنے دست مبارک سے عطا فرمائی۔
حافظ صاحب واپس گھر پہنچے۔ تو اگلے ہی جمعہ کی نماز کے بعد آپ پر مخالفین نے یلغار کردی۔ آپ کی ذاتی زمین پر تعمیرشدہ مدرسہ پر قبضہ کرلیا۔ ذاتی رہائشگاہ پر بھی قبضہ کی کوشش کی۔ حافظ صاحب نے خوب جوانمردی سے مقابلہ کیا اور کسی طور گھر کو نہ چھوڑا۔ خدا کا شکر کہ اس زمانہ میں AC کوئی اچھا انسان تھا جس کی سمجھ میں تمام بات آگئی۔ اُس نے حافظ صاحب کو نہایت عزت کے ساتھ حوصلہ دے کر رخصت کیا اور وعدہ کیا کہ حق تلفی نہیں ہونے دے گا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ جو اس نے کہا تھا اسے کرکے بھی دکھایا۔ مقدمہ تو کافی دیر چلا مگر قبضہ حافظ صاحب کو مل گیا۔
حالات کچھ بہتر ہوگئے مگر مخالفین نے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بیرونی ابتلاء کے ساتھ گھریلو ابتلا بھی شروع ہو گئے۔ حافظ صاحب کے بڑے بیٹے میاں بشیر احمد صاحب کے سسر نے فتویٰ حاصل کرلیا کہ قادیانی ہو جانے کے بعد نکاح خود بخود ٹوٹ جاتا ہے اور اُن کی زوجہ کا کسی اَور سے نکاح کردیا۔ حافظ محمد یار صاحب کی بیگم کو بھی ورغلانے کی پوری کوشش کی گئی مگر یہ سادہ وفاشعار خاتون یہی جواب دیتی رہی کہ دین میں پِیروں کی بیعت کرنے کا ذکر کہیں نہیں ہے البتہ امام مہدی کی بیعت کا حکم ہے لہٰذا مَیں حافظ صاحب کے ساتھ ہی جیوں مروں گی۔ایک ہمشیرہ شادی شدہ تھی اس کے سسرال نے اُسے روک لیا کہ اب میکے نہیں جانا۔
حافظ محمد یار صاحب کی وفات 24 مئی 2003ء کو ہوئی۔ تدفین ربوہ میں ہوئی۔
محترم حافظ صاحب نے اپنی اولاد کو آخری پیغام یہ دیا کہ جس طرح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ دنیا میں اسلام کی اشاعت کررہے ہیں اسی طرح آپ بھی ان کے ساتھ خدمت دین کرتے رہیں۔آپ کے دو بیٹے میاں بشیر احمد صاحب اور نذیر احمد سانول صاحب بطور معلم سلسلہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ دیگر تین بھائی بھی اپنے اپنے رنگ میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں