مکرم حمیدالدین احمد صاحب

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 25؍جون تا یکم جولائی 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍اپریل2013ء میں مکرم عبدالباری قیوم شاہد صاحب نے اپنے بھائی مکرم حمیدالدین احمد صاحب مرحوم کا ذکرخیرکیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ بھائی حمید صاحب 4ستمبر 1932ء کو فیروز پور میں پیدا ہوئے۔چند سال بعد ہمارے والد کیپٹن شیخ نواب دین صاحب نے جو اس وقت قلعہ آرسنل فیروزپور میں ملازم تھے،قادیان میں ایک مکان کرایہ پر حاصل کر کے میری والدہ اور دوبیٹوں کو وہاں چھوڑ دیا تاکہ قادیان کے دینی اور روحانی ماحول میں بچوں کی بہتر رنگ میں پرورش ہو سکے۔گاؤں کی ایک دُور کی رشتہ دار بوڑھی عورت کو والدہ صا حبہ کے پاس رکھا کیونکہ اس عورت کا بھی کوئی سہارا نہ تھا۔ 1942ء تک والد صاحب قادیان میں دو مکان اور ایک پلاٹ خرید چکے تھے۔ آپ جہاں بھی ٹرانسفر ہوکر جاتے تو آپ کو فرنشڈ رہائش ملتی چنانچہ والدہ اور چھوٹے کمسن بچے آپ کے ساتھ رہنے لگے لیکن بڑے تینوں بیٹے قادیان میں زیرتعلیم رہے۔ پھرتقسیم ملک کے وقت تینوں بھائی اپنے والد صاحب کے پاس الٰہ آباد چھوکی چھاؤنی آگئے۔جہاں سےساری فیملی سپیشل فوجی ٹرین کے ذریعہ بمبئی پہنچی اور دسمبر1947ء میں بذریعہ سٹیمر بحری سفر کرکے کراچی آگئی۔میری عمر اس وقت صرف پانچ سال تھی۔ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قافلہ کے ساتھ کراچی سے لاہور تک ایک ہی بوگی میں سفر کرنا بھی یاد ہے۔
لاہور میں پہلے جلسہ سالانہ میں ہم سب شامل ہوئے۔ اس کے بعد والد صاحب کا تبادلہ لاہور سے راولپنڈی ہوگیا۔ جبکہ بھائی حمید صاحب اور بھائی غالب صاحب دونوں اپنے ایک تایا زاد بھائی سعید احمد صاحب کے ہمراہ لاہور سے چنیوٹ جا کر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل ہوگئے۔ سرزمین ربوہ کی افتتاحی تقریب کے لیے جب محترم عبدالسلام اختر صاحب اور مکرم مولوی محمدصدیق صاحب نے ٹرک کے ذریعہ سامان لا کر ربوہ میں پڑاؤ ڈالا تو ان دونوں کے لیے کھانا پانی وغیرہ چنیوٹ سے پیدل ربوہ لانے والوں میں بھائی حمید صاحب اور بھائی غالب صاحب بھی شامل تھے۔ دونوں بھائی تقریب افتتاح میں بھی شامل ہوئے۔
بھائی حمید صاحب نے میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ سے پاس کیا۔ بعدازاں کام کے ساتھ ساتھ پنجابی فاضل کا امتحان 1960ء میں اور 1967ء میں انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔1968ء میں کراچی یونیورسٹی سے مارکیٹنگ مینجمنٹ کاکورس پاس کیا۔ 1972ء میں ایلیمنٹری بک کیپنگ اکاؤنٹس کا امتحان لندن چیمبر آف کامرس سے پاس کیا۔
اگست1951ء میں اپنے والد صاحب کے کالا ضلع جہلم میں قیام کے دوران آپ نے کالا آرڈیننس ڈپو میںLDCکی حیثیت سے ملازمت کرلی۔دو سال بعد والد صاحب کا تبادلہ سہالہ راولپنڈی ہوگیا تو آپ نے بھی اپنا تبادلہ چک لالہ راولپنڈی کروالیا۔اگست1954ء میں ملازمت سے فراغت حاصل کرکے والدہ صا حبہ و دیگر بھائی بہنوں کے پاس ربوہ آگئے اور پہلے نظارت مال صدرانجمن احمدیہ ربوہ اور بعد ازاں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ملازم رہے۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خدمت کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی ڈاک ربوہ سے نخلہ و مری لے جانے اور لانے کی بھی توفیق پاتے رہے۔ 16جون1956ء کو نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ اپنے تما م لازمی اور طوعی چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔جماعت کے اخبار و رسائل کے باقاعدہ خریدار تھے۔ نظام سلسلہ سے ہمیشہ مضبوط تعلق قائم رہا۔جہاں بھی رہے جماعت اور ذیلی تنظیم کے مثالی کا رکن رہے۔قیام ربوہ کے دوران اپنی جماعت میں سیکرٹری امورعامہ اورمجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی مجلس عاملہ کے فعال ممبر رہے۔حلقہ ڈرگ روڈ کراچی میں جنرل سیکرٹری اور خدام کی مجلس عاملہ میں ناظم مال رہے۔ مجلس انصاراللہ ماڈل کالونی میں منتظم عمومی کے طور پر بہت فعال کردار ادا کرتے رہے۔ زعیم اعلیٰ صاحب اور دیگر سب لوگ ان کے کام کی تعریف کرتے تھے۔ انصاراللہ کا سہ ماہی پرچہ باقاعدگی سے حل کیا کرتے اور متعدد بار نمایاں پوزیشن حاصل کر کے انعامات بھی حاصل کیے۔علمی مقابلوں میں اکثر حصہ لیتے۔تلاوت نظم کے مقابلوں کے بے شمار انعامات ان کے پاس موجود تھے۔
1962ء میں آپ فیروز سنز لیمیٹڈ کراچی میں اسسٹنٹ مینیجر کی حیثیت سے ملازم ہوئے۔ ڈیڑھ سال بعد یہ ملازمت ترک کردی۔ پھر مئی1964ء سے جنوری1970ء تک مغل ٹوبیکو کمپنی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں بطور اسسٹنٹ کام کیا۔آپ پنجاب و سندھ سیکشن کے انچارج تھے اور ایک فعال داعی الی اللہ تھے۔چنانچہ جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے کمپنی کے دو دوستوں کو اپنے خرچ پر ربوہ لے گئے۔واپسی پر انتظامیہ کو پتہ لگا تو ان تینوں کو کمپنی کی ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔1970ء سے 1975ء تک آپ نے ماڈرن موٹرز میں کام کیا۔ اور اس کے بعد 1994ء تک مختلف کمپنیوں میں مینیجر اور آڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ آپ کو 1970-71ء میں رضا کار شہری دفاع کی تنظیم کے آفس انچارج کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔
1994ء میں آپ کی تعیناتی جماعت احمدیہ کراچی کے شعبہ رشتہ ناطہ کے ضلعی دفتر میں ہوئی اور ساڑھے چار سال تک نہایت اخلاص، محنت اور فرض شناسی کے ساتھ دفتری امور سرانجام دیتے رہے۔ بالآخر ہرنیا اور پائلز کے آپریشنزکے بعد فراغت حاصل کر لی اور اپنی مقامی جماعت اور مجلس انصاراللہ ماڈل ٹاؤن کراچی کے لیے وقف ہوگئے۔ آپ کی عمومی صحت بوجہ شوگر اور کالا موتیا کمزور ہوتی جارہی تھی لیکن روزمرہ امور کی سرانجام دہی میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔
آپ کی کوئی اولاد نہ تھی لیکن دونوں میاں بیوی میں انتہا درجہ کا پیار تھا۔ اپنے بھائی بہنوں اور ان کے بچوں کے ساتھ بھی پیار اور شفقت کاایک مثالی تعلق تھا۔ آپ کا گھر ہمیشہ عزیز بچوں کی گہماگہمی سے محبتوں کا گہوارہ بنا رہتا تھا۔آپ کی اہلیہ کی بصارت سے محروم ایک ہمشیرہ بھی آپ کے ہاں رہتی تھیں۔ آپ اُن کا بھی اپنی سگی بہن کی طرح خیال رکھتے تھے اور اُن کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے۔گھر کا ماحول ہمیشہ بڑا پاکیزہ رکھا۔حضور انور کا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنا جاتا۔نمازیں باجماعت ادا ہوتیں۔ خلیفہ وقت کی خدمت میں تو کثرت سے دعائیہ خطوط لکھا ہی کرتے تھے لیکن خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی کئی بزرگ ہستیوں سے بھی خط و کتابت کا تعلق تھا۔ دعوت الی اللہ اور مہمان نوازی آپ میاں بیوی کے دو خصوصی اوصاف حمیدہ تھے۔ بے شمار سعید روحیں زیر تبلیغ رہیں۔ اپنے گھر کی ایک بالکنی میں دانہ دُنکا بکثرت بکھیرے رکھتے۔ جہاں ساراد ن بڑے چھوٹے پرندے چُگنے آیا کرتے تھے۔ بلیوں کے لیے الگ کھانا رکھا جاتا تھا اور کہا کرتے تھے کہ یہ سب بھی ہمارے روزانہ کے مہمان ہیں۔
محترم بھائی حمید صاحب مرحوم ایک نیک، صالح، دعاگو اور مستجاب الدعوات بزرگ انسان تھے ۔بڑے بااصول، نفاست پسند ،خوددار اور سلسلہ کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہتے۔سچی خوابیں دیکھنے والے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں