مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 دسمبر 2009ء اور 4 جنوری 2010ء میں مکرم رشید احمد صاحب (کارکن نظارت امور عامہ ربوہ ) کے قلم سے مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ کا تفصیلی ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں آپ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 10 اگست 2001ء کے اسی کالم میں کیا جاچکا ہے۔
مکرم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایک انتھک وجود تھا۔سلسلہ کو جب بھی آپ کی ضرورت پیش آئی آپ سب کچھ چھوڑ کر فوراً حاضر ہو جاتے۔ آپ غریب پرور،بے سہارا لوگوں کا خیال رکھنے والے، مہمان نواز، صلہ رحمی اور خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ بزرگوں کا بے حد احترام کرتے ۔ جماعتی مقدمات کوپوری لگن اور محنت سے تیار کرتے اور مکمل تیاری سے عدالت میں پیش ہوتے۔ گواہوں پر جرح کا آپ کو اعلیٰ ملکہ حاصل تھا۔ عدالت میں پورے اعتماد کے ساتھ بحث کرتے اور اکثر مقدمات میں کامیابی حاصل کرتے۔
1974ء میں ایک احمدی نوجوان کو سیشن کورٹ سے سزا ہوئی جو ہائیکورٹ نے بھی بحال رکھی۔ملزم کے عزیزوں نے اصرار کیا کہ مکرم خواجہ صاحب ہی سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوں۔ چنانچہ آپ اور ایک دوسرے سینئروکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور وہ نوجوان سپریم کورٹ سے بَری ہو گئے۔
محترم خواجہ صاحب 1930ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور بعمر 70سال 22مئی 2000ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وکالت پاس کرنے کے بعد 1952ء میں باقاعدہ پریکٹس شروع کی اور خداداد ذہانت اور محنت سے بہت ترقی کی۔ عموماً مقدمات میں دفاع کے لئے پیش ہوتے اور کامیاب ہوتے۔
میری آپ سے پہلی ملاقات1965ء کی جنگ کے بعد ہوئی جب حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ دیگر بزرگوں کے ساتھ جنگ سے متأثرہ افرادکو ملنے اور مالی امداد دینے کے لئے سیالکوٹ کے مختلف علاقوں میں قائم کیمپوں میں گئے۔ اس کے بعد محترم خواجہ صاحب سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہی۔ مگر 1974 ء کے ابتلاء کے بعد آپ سے مسلسل رابطہ رہا۔ ابتلاء کے دوران احمدیوں پر بنائے جانے والے متعدد مقدمات کے سلسلہ میں آپ مسلسل تین ماہ تک ربوہ میں ہی قیام فرما رہے اور اس عرصہ میں آپ نے اپنی پریکٹس کی کوئی پرواہ نہ کی۔ اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد کی تعمیل میں آپ کو کچھ رقم بھجوائی گئی مگر آپ نے لینے سے معذرت کر دی۔
جماعتی کاموں کو ہمیشہ ذاتی کاموں پر ترجیح دی۔ ایک مرتبہ آپ کو ذاتی کام کے سلسلہ میں کینیڈا جانا پڑا مگر پندرہ دن بعد بعض اہم جماعتی مقدمات کی وجہ سے وہاں سے واپس آگئے۔ آپ نے 26سال تک عدالتی محاذوں پر بڑی جرأت اور دلیری سے مقابلہ کیا اور کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے رہے۔ آپ کا حافظہ بلا کا تھا۔ بے شمار حوالہ جات اَز بر تھے۔ عدالت میں جب بھی کسی حوالہ کی ضرورت پیش آتی تو فوراً متعلقہ کتاب سے حوالہ نکال کر پیش کردیتے۔ جماعتی مقدمات کی پیروی پوری ذمہ داری سے کرتے۔ عدالتوںمیں وقت مقررہ پر پہنچتے اور ملزمان کو بھی ہمیشہ وقت کی پابندی کرنے کی تلقین کرتے۔ استغاثہ کے گواہان پر مؤثر انداز میں جرح کرتے۔
1974ء کے فسادات میں کیمبل پور میں ایک معاندِاحمدیت اپنے ہاتھ میں بم پھٹنے سے ہلاک ہوگیا تو تین احمدیوں کے خلاف قتل کا ایک جھوٹا کیس بنا دیا گیا۔ 1977ء میں اس کیس کی سماعت مکرم ظہیر الدین صاحب یوسفی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں شروع ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد کی تعمیل میں جماعت کے سینئر وکلاء نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے اس کیس کی پیروی کی۔ان وکلاء میں مکرم خواجہ صاحب بھی شامل تھے۔ جب آپ نے مخالف گواہان پر جرح شروع کی تو ایک مقامی وکیل (غالباً سردار ممتاز علی صاحب سابق وزیر) اس بحث پر بہت خوش ہوئے۔ تین دن تک مقدمہ کی سماعت جاری رہی، اور عدالت نے تینوں ملزمان کو بَری کر دیا۔
ایک مرتبہ مکرم خواجہ صاحب کہنے لگے کہ فوجداری وکیل قتل کیس میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے فیس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مگر میرا ضمیر نہیں مانتا کہ لوگوں کے گھر بار بِکوا کر اتنی بڑی رقوم لوں۔ میں مناسب حد تک فیس لیتا ہوں اور بعض اوقات ان کی غربت کے پیش نظرفیس بھی نہیں لیتا۔ چنانچہ انہوں نے بتایا کہ ضلع کچہری کے ایک مددگار کے بیٹے سے قتل ہوگیا تو وہ روتا ہوا ان کے پاس آیا اور کہا کہ میرے گھر میں تو کھانے کے لئے بھی نہیں اور اب یہ مصیبت آن پڑی ہے۔ آپ نے اُسے تسلی دی کہ مَیں آپ کے بیٹے کا مقدمہ مفت لڑوں گا۔ چنانچہ وہ دعائیں دیتا ہوا واپس چلا گیا۔
ایک دفعہ ایک قتل کیس میں آپ کو ملزم پارٹی نے وکیل مقرر کیا اور فیس کیلئے کافی بڑی رقم پیش کی مگر آپ نے جو جائز فیس بنتی تھی لے کر بقیہ رقم واپس کر دی۔
اسی طرح ایک پارٹی نے آپ کو اپنے مقدمہ میں وکیل کرنا چاہا۔ آپ نے مقدمہ کی F.I.R پڑھی تو ملزم نے اپنی بیوی کو قتل کیا ہوا تھا۔ آپ نے تفصیل پوچھی تو جب قاتل نے آپ کو سارے واقعات بتائے تو آپ نے اسے کہا کہ مَیں ایسے ظالم آدمی کا کیس نہیں لڑسکتا، آپ کسی اور کو وکیل مقرر کرلیں۔
مکرم شیخ ناصر احمد صاحب آف اوکاڑہ کو ایک سفّاک نے عیدالاضحی کے روز 18ستمبر1983ء کو چھرا گھونپ کر شہید کر دیا تو مکرم خواجہ صاحب کو مرکز کی طرف سے اوکاڑہ پہنچنے کی ہدایت ہوئی۔ خاکسار ربوہ میں تدفین کے بعد اوکاڑہ پہنچا تو مکرم خواجہ صاحب عید کی مصروفیات چھوڑ کر خاکسار سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے تاکہ مقامی وکلاء سے مشورہ کرسکیں۔
آپ نے 1974ء سے 2000ء تک جماعتی مقدمات کی پیروی میں پاکستان بھر کی عدالتوں میں پیش ہو کر خدمت کی توفیق پائی اور اس عرصہ میں ربوہ، چنیوٹ، جھنگ، فیصل آباد، سرگودھا، میانوالی، جہلم، گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ڈسکہ، پسرور، نارووال، وزیر آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، راولپنڈی، لاہور، کھاریاں، خوشاب، کیمل پور، ملتان، اوکاڑہ ، کراچی اور اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ۔ ان 26 سالوں میں جتنے بھی جماعتی مقدمات کی پیروی کرتے رہے ان کی جماعت سے کوئی فیس نہ لی بلکہ ان میں سے اکثر کے عدالتی اخراجات بھی خود ادا کرتے رہے۔ بعض اوقات ہوائی جہاز کے ذریعہ جانا پڑا تو اس کے اخراجات بھی خود برداشت کئے۔
1989ء اور1990ء میں روزنامہ الفضل اور دیگر جماعتی رسائل پر یکے بعد دیگرے مقدمات درج ہونے پر آپ کو بطور خاص خدمت کی توفیق ملی۔ اس عرصہ میں الفضل اور دیگر رسائل پر 157 افراد کے خلاف 44 مقدمات قائم ہوئے۔ اس طرح ایڈیٹر، پبلشر اور پرنٹر وغیرہ کی ضمانت قبل از گرفتاری اور ضمانتوں کی کنفرمیشن کے سلسلہ میں بے حد مصروف رہے اور تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد آپ کو سیالکوٹ سے ربوہ آنا پڑتا۔
1984ء میں آرڈیننس جاری ہوا تو بے شمار افرادِ جماعت کے خلاف مقدمات بنائے گئے۔مکرم خواجہ صاحب نے ان مقدمات کی پیروی بڑی ہمت اور دلیری سے کی اور اپنے آپ کو ہمہ وقت جماعت کے لئے وقف کر دیا۔اس عرصہ میں ذاتی مقدمات جو سیالکوٹ میں زیر سماعت ہوتے وہ عدالتیں آپ کی مصروفیات جانتے ہوئے مؤخر کردیتیں۔ مقامی عدالتیں آپ کا بے حد احترام کرتیں۔ ایک دفعہ خاکسار سیالکوٹ میں آپ کے پاس موجود تھا کہ ایک عدالت کا قاصد آیا کہ صاحب نے آپ کو یاد کیا ہے۔ آپ مجھے بھی ہمراہ لے گئے۔ ہم عدالت میں پہنچے تو دو پارٹیوں کے وکلاء ایک معاملہ میں بحث کر رہے تھے۔ عدالت نے مکرم خواجہ صاحب سے زیر بحث معاملہ میں قانونی رائے چاہی تو مکرم خواجہ صاحب نے اپنا نقطئہ نظر پیش کیا جس پر عدالت نے آپ کا شکریہ اداکیا۔
آپ خلفاء سلسلہ سے دلی عقیدت رکھتے تھے اور ان کے ہر حکم کی تعمیل اپنا جزو ایمان سمجھتے۔جب بھی اُنہیں بلایا گیا تو فوراً حاضر ہوجاتے اور جو حکم ملتا اس کی بجاآوری میں فرحت محسوس کرتے۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی طرف سے رات دس بجے حکم ہوا کہ مکرم خواجہ صاحب کو فوری بلایا جائے چنانچہ آپ کو اطلاع دی گئی اور ہم اُسی وقت آپ کو لینے کے لئے گاڑی پر سیالکوٹ روانہ ہوئے۔ قریباً اڑھائی بجے سیالکوٹ پہنچے تو خواجہ صاحب بالکل تیار بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ اسی وقت ہمارے ساتھ ربوہ چل پڑے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی خدمت اقدس میں جب موصوف کے بارہ میں مقدمات کی پیروی کی رپورٹیں جاتیں تو آپ کو بڑے پیارے خطوط ملتے جس سے آپ بے انتہا خوش ہوتے۔چنانچہ حضور انور نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایاکہ: ’’پیارے سرفراز! ابتلاء کے اس دَور میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو جماعت کی نمایاں خدمت کرنے کی توفیق دی ہے۔ آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا ہے۔ آپ کی ان قابل قدر خدمات کی وجہ سے میرے دل کی گہرائی سے دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کا بہترین اجر عطا فرمائے اور ان کے مثبت نتائج برآمد ہوں، مزید خدمات کی توفیق دے اور اپنے فرشتوں سے مدد فرمائے۔اللہ آپ کی وکیلانہ صلاحیتوں کو اُجاگر فرمائے اور کامیابیاں عطا کرے۔…‘‘۔
1988ء میں مربی سلسلہ مکرم عبدالقدیر قمر صاحب اور ان کے دو نسبتی بھائیوں پر دفعہ 298/C کا مقدمہ قائم ہوا جو بعد میں دفعہ295/C میں تبدیل کردیا گیا ۔ اس کیس میں سیشن کورٹ نے تینوں کو عمر قید کی سزا دی اور پھر ہائیکورٹ سے بھی ضمانت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے بہت فکرمندی تھی۔مکرم خواجہ صاحب نے اس کیس کی ضمانت کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست کی جہاں سے ضمانت منظور ہوگئی۔ تو عدالت کے ایک اہلکار نے آپ کو اس ضمانت پر مبارکباد دی۔ آپ کو اتنی خوشی تھی کہ جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک ہزار کانوٹ نکلا اور یہ رقم اُسے دے کر کہا کہ مجھے اس قدر خوشی ہے کہ اگر جیب سے اَور بھی کچھ نکل آتا تو وہ بھی پیش کر دیتا۔ اس فیصلہ کی اطلاع پر حضورؒ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا اور مکرم خواجہ صاحب کو بیس ہزار روپے انعام بھجوایا اور مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو تاکید کی کہ خواجہ صاحب جماعت کی طرف سے کوئی پیسہ نہیں لیتے اس لئے انہیں وضاحت کردیں کہ یہ انعام میری طرف سے ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب نے قدرے ہچکچاہٹ کے بعد یہ رقم قبول کرلی۔
مکرم خواجہ صاحب جماعتی مقدمات کی وجہ سے اکثر سیالکوٹ سے غیر حاضر رہتے۔ ایک دن آپ ربوہ سے فارغ ہو کر سیدھے سیالکوٹ کچہری پہنچے۔ اس دن آپ کے کچھ کیس عدالت میں لگے ہوئے تھے۔ چیمبر میں پہنچنے پر آپ کے منشی نے کہا کہ آپ کئی کئی دن کچہری سے غیرحاضر رہتے ہیں مقدمے والے لوگ پریشان ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔ مکرم خواجہ صاحب نے کہا کہ منشی صاحب آپ گھبرائیں نہیں مجھے آپ کی پریشانی کا علم ہے۔ تھوڑی دیر بعد خواجہ صاحب کے تین چار مؤکل آئے اور انہوں نے ایک لاکھ روپے کے قریب رقم آپ کو بطور فیس دی جس پر آپ نے منشی صاحب کو بلاکر کہا کہ یہ دیکھیں، پیسے ہی پیسے آگئے ہیں، جتنے چاہتے ہیں لے لیں۔
ایک دن خاکسار آپ کے ہمراہ لاہور جا رہا تھا۔ جب کار شیخوپورہ پہنچی تو آپ نے ڈرائیور سے کہا کہ ذرا ضلع کچہری کی طرف چلیں۔ وہاں ہم ایک جج صاحب کی عدالت میں گئے۔ صبح کا وقت تھا۔ جج صاحب سے بڑے خوشگوار ماحول میں علیک سلیک ہوئی اور آپ نے اُن سے کہا کہ جب آپ سیالکوٹ تعینات تھے تو اس وقت آپ نے فلاں کیس میں ایک عورت اور ایک مرد کو سزائے موت دی تھی۔ میرے نزدیک وہ سزا غلط تھی۔ آج اس کیس کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور وہ انشاء اللہ بری ہوں گے۔ جج صاحب ہنس پڑے اور خواجہ صاحب کو بیٹھنے کو کہا مگر آپ نے وقت کی کمی کی وجہ سے معذرت کر لی۔ اسی دن گیارہ بجے ہائی کورٹ میں اس کیس پر خواجہ صاحب نے ایک گھنٹہ بحث کی اور اگلے روز عدالت نے ہر دوملزمان کو بَری کردیا۔
بعض بزرگ عدالتی مقدمات میں مشورے کے لئے آپ کے پاس آتے تو آپ ان کی راہنمائی کرتے اور بڑے درد سے ان کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر بڑی محنت سے عدالتوں میں پیروی کرتے۔
جماعت کے جو بزرگ سیالکوٹ جاتے ان کا بے حد احترام کرتے ان کے آرام اور آسائش کا ہر طرح خیال رکھتے۔اس ضمن میں آپ کے والد مکرم خواجہ عبدالرحمن صاحب کا ذکر خیر کرنا ضروری ہے۔ وہ بھی بڑے مہمان نواز اور خدمت گزار تھے۔ ہر آنے والے کا بڑا خیال رکھتے۔ سیالکوٹ میں اسیران کو جیل میں کھانا بھجواتے۔جماعت کے مال کو سنبھالنے کی بڑی تڑپ رکھتے تھے۔انہوں نے سیکرٹری جائیداد ہونے کی وجہ سے جماعت احمدیہ سیالکوٹ کی جائیداد سنبھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
محترم خواجہ صاحب حضرت چودھری ظفراللہ خانصاحبؓ کے چھوٹے بھائی چودھری اسداللہ خان صاحب کے داماد تھے۔ لیکن آپ حضرت چودھری ظفراللہ خانصاحبؓ کا ویسے بھی بے حد احترام کرتے اور اُن کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے۔ حضرت چودھری صاحبؓ بھی آپ سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے۔
مکرم خواجہ صاحب فیصل آباد تشریف لے جاتے توحضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر سے بھی ضرور ملتے اور جماعتی مقدمات کے بارہ میں تبادلۂ خیالات کرتے۔ حضرت شیخ صاحب چائے وغیرہ بھی پیش کرتے۔ ایک مرتبہ وقت کی کمی کے باعث آپ نے اجازت چاہی تو حضرت شیخ صاحب نے دو لفافوں میں خشک میوہ جات ڈال کر آپ کو دیئے کہ آج ہماری چائے نہیں پی اس لئے یہ پھل استعمال کرلیں۔
محترم خواجہ صاحب جب ربوہ تشریف لاتے تو دارالضیافت قیام کرتے اور ان کی خواہش ہوتی کہ جس کمرہ میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ٹھہرتے ہیں اگر وہ خالی ہے تو وہی آپ کو دیدیا جائے۔ عموماً آپ کو وہی کمرہ مل جاتا۔
مکرم خواجہ صاحب کو کئی سال مجلس مشاورت کے موقع پر بطور نمائندہ خاص شامل ہونے کی توفیق ملی۔ دو مرتبہ جماعتی نمائندہ کے طور پر جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شامل ہوئے۔تیسری مرتبہ جانے کی منظوری آئی مگر آپ نے جماعتی مقدمات میں مصروف ہونے کی وجہ سے جانے سے معذرت کر لی۔
مکرم خواجہ صاحب ایک احمدی وکیل کے منشی کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ کو باقاعدگی سے دو ہزار روپے ماہوار بھیجا کرتے تھے۔ ایک بار اپنی مصروفیات کی وجہ سے مسلسل دو ماہ آپ انہیں یہ رقم نہ بھجواسکے تو وہ بیوہ آپ کا گھر تلاش کرکے پہنچی اور اپنی حالت کا ذکر کیا۔ آپ کو اُس کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا اور آپ نے دو ماہ کی رقم سے کچھ زائد اُس کو دی اور آئندہ بروقت رقم پہنچانے کا وعدہ کیا۔
ایک دفعہ مَیں آپ کے ہمراہ لاہور کی مال روڈ پر جا رہا تھا کہ ایک فقیر کی صدا پر آپ نے اپنی جیب سے ساری ریزگاری نکال کر اُس کے کاسہ میں ڈال دی۔ فقیر سمجھ گیا کہ یہ کوئی امیر آدمی ہے۔ چند منٹ بعد وہ ایک نسخہ ہاتھ میں پکڑے دوبارہ آیا اور کہا کہ یہ ادویات ڈیڑھ سو روپے کی آتی ہیں لیکن وہ ایک غریب آدمی ہے۔ اس پر آپ نے اندر کی جیب سے ڈیڑھ سو روپے نکال کر اُسے دیدیئے۔ مَیں نے حیرت کا اظہار کیا تو آپ کہنے لگے کہ ممکن ہے اسے واقعی ضرورت ہو۔
9 مارچ 1989ء کو اسلم قریشی نے سیشن کورٹ سیالکوٹ میں آپ پر قاتلانہ حملہ کرکے آپ کو شدید زخمی کردیا۔ اس پر سیالکوٹ کے وکلاء کی طرف سے شدید احتجاج کیا گیا اور اخبارات نے خبریں شائع کیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو اطلاع ملی تو حضورؒ نے آپ کو تحریر فرمایا: ’’چند روز قبل بدباطن دشمن احمدیت کی طرف سے آپ پر حملے کی اطلاع ملی تو بڑی فکرمندی پیدا ہوئی۔ لیکن ساتھ ہی اس تاریخ ساز دَور میں خدا کی طرف سے قربانی کی سعادت عطا ہونے پر رشک بھی آیا۔ علمی میدان میں تو آپ پہلے ہی مقدمات کی پیروی کے ذریعے خوب رضائے مولیٰ حاصل کررہے تھے۔ اب اللہ نے جسمانی قربانی کی سعادت عطا کرکے ایک اور انعام آپ پر نازل فرمایا ہے …‘‘۔
ہر مقدمہ کا فیصلہ لمبی جدوجہد کے بعد آپ کے حق میں آتا اور آپ کو حضورؒ کی خاص دعائیں حاصل کرنے کا موقع ملتا۔ چنانچہ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور اُن کے دس ساتھیوں کو گوجرانوالہ کے سیشن جج نے 1990ء میں دو دو سال قید کی سزا سنائی جو بعد میں ہائیکورٹ نے 1998ء میں ختم کردی۔ یہ اطلاع ملنے پر حضورؒ نے محترم خواجہ صاحب کو لکھا: ’’اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے اخلاص، جذبۂ خدمت، وفاداری اور ایمان کو غیرمعمولی ترقی عطا فرمائے۔ ہر آن آپ پر اپنی جناب سے کبھی نہ ختم ہونے والے افضال و انوار نازل فرمائے۔ اسیران راہ مولیٰ کے مقدمات میں آپ کی مساعی لائق تحسین ہے اور محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی رہائی میں آپ نے جو خصوصی کوششیں کی ہیں اس پر میرا دل بہت خوش ہوا ہے ……‘‘۔
ایک اور خط میں حضور رحمہ اللہ نے آپ کو لکھا: ’’…اللہ تعالیٰ آپ کو اس دور میں بڑی عظیم خدمت کی توفیق عطا فرما رہا ہے اور یہ آپ پر اُس کا غیرمعمولی فضل و احسان ہے کہ تاریخ ساز کارناموں کے مواقع مہیا فرما رہا ہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ۔ لیکن آپ ایسی خاموشی اور انکساری سے خدمت کرتے ہیں کہ کھوج لگاکر پتہ کرنا پڑتا ہے کہ اس میں آپ کی خدمت کا دخل بھی ہے کہ نہیں ۔ ماشاء اللہ چشم بددُور…‘‘
ایک خط میں فرمایا: ’’قانونی کارروائیوں کو جس پھُرتی اور دانشمندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ آپ نے اپنی انکساری کا جس انداز سے ذکر کیا ہے یہی انداز اور معیار زیب دیتا ہے اور اس انکساری نے آپ کی خدمتوں کو چارچاند لگادیئے ہیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ اللّھم زدوبارک …‘‘
محترم خواجہ صاحب کی والدہ کی وفات پر تحریر فرمایا: ’’…وہ ماں یقینا خوش نصیب ہے جس کا بیٹا خدمتِ دین میں مصروف ہے اور وہ اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئیں۔ آپ کی دینی خدمات سے اُن کی روح پُرسکون ہوگی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لازوال نعمتوں سے نوازے گا……‘‘۔
1984ء میں ہجرت کے حوالہ سے جن بزرگانِ جماعت کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے یاد فرمایا تھا، اُن میں محترم خواجہ صاحب بھی شامل تھے۔
آپ نے سکھر اور ساہیوال کے اسیران راہ مولیٰ کے کیسوں میں بھی بہت خدمت کی توفیق پائی۔
وفات سے تین چار روز قبل محترم خواجہ صاحب میانوالی میں ایک جماعتی کیس کی پیروی کرکے ربوہ پہنچے تو حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (ناظر اعلیٰ و امیر مقامی) نے آپ کی صحت کی حالت دیکھتے ہوئے فرمایا کہ آپ فوری طور پر راولپنڈی جاکر ڈاکٹر نوری صاحب سے چیک اَپ کروائیں۔ آپ نے جواب دیا کہ ڈاکٹر صاحب چار پانچ روز میں ربوہ آرہے ہیں، مَیں اُس وقت تک گوجرانوالہ اور قصور کے دو جماعتی مقدمات سے فارغ ہوجاؤں گا اور ربوہ میں ہی اُن سے چیک اَپ کروالوں گا۔
پھر محترم خواجہ صاحب دفتر امورعامہ تشریف لائے اور مجھے ہمراہ لے کر دارالضیافت پہنچے۔ شام کو آپ میں ضعف اور سانس پھولنے کے آثار نمایاں تھے لیکن آپ نے ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کردیا اور لاہور روانہ ہوگئے۔ اگلے روز تکلیف کے باوجود لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔ عدالت میں ہی آپ کی طبیعت خراب ہوگئی تو بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔ آپ کی حالت دیکھ کر آپ کو ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے فوری آپریشن کا فیصلہ کیا لیکن ابھی آپریشن کی تیاری جاری تھی کہ 23مئی 2000ء کو آپ کی وفات ہوگئی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مرحوم کے بھائی مکرم خواجہ ظفر احمد صاحب امیر ضلع سیالکوٹ کے نام اپنے تعزیتی مکتوب میں فرمایا: ’’پیارے عزیزم خواجہ سرفراز احمد صاحب ایڈووکیٹ کی وفات کا سانحہ قابل رشک بھی اور افسوسناک بھی۔ عدالت میں خدمت کرتے ہوئے وفات پانا تو گویا شہادت کا مرتبہ پانا ہے لیکن ان کی جدائی فی ذاتہٖ ایک بہت بڑا جماعتی سانحہ بھی ہے لیکن ہم نے تو ہر حال میں اللہ کی رضا پر ہی راضی رہنا ہے اور اسی میں اصل زندگی ہے۔ جانے والے جو اپنی اچھی اچھی اور پیاری پیاری یادیں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں وہی یادیں خواجہ صاحب کی وفات پر بار بار مجھے بھی ستا رہی ہیں۔ اُن کی بے لوث خدمتیں، اسیران کی رستگاری کے لئے اَن تھک محنت اور وفا کے ساتھ عدالتی محاذوں پر ڈٹے رہنااُن کی دلنشیں یادیں ہیں۔ وہ جس محاذ پر لڑے خوب لڑے اور فتحیاب ہوئے۔ مجھے احمدیت کے اس سپوت پر بہت فخر ہے۔ ان کے کارنامے آبِ زر سے لکھے جائیں گے۔ تاریخ احمدیت بھی ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ میرے دل میں بے حد قدر ہے اور مَیں خدا کے حضور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا گو ہوں۔ ……‘‘
محترم خواجہ صاحب کا احترام غیروں کے دل میں بھی بہت تھا چنانچہ سیالکوٹ بار میں ایک ریفرنس پیش کیا گیا جس میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے قرارداد تعزیت پیش کی اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ہال میںمنعقد ہونے والے تعزیتی اجلاس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سرپرستی میں ممبرانِ عدلیہ بھی شامل ہوئے۔ اجلاس میں محترم خواجہ صاحب کی پیشہ وارانہ خدمات کو سراہا گیا اور آپ کی دیانتداری، پیشہ سے لگن، صاف گوئی اور بے باکی کی داد دی گئی۔
محترم خواجہ صاحب کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں سپردخاک کیا گیا۔ آپ نے اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں