مکرم رستم خان خٹک صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر 2011ء میں مکرم عبداللہ زرتشت صاحب کے قلم سے درج ذیل شہید احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
خلافت ثالثہ کے عہد کے پہلے شہید مکرم رستم خان صاحب تھے جنہیں مردان میں 11؍فروری 1966ء کو شہید کردیا گیا۔ آپ پشاور کے قریب ایک گاؤں جلوزئی کے رہنے والے تھے۔ خود احمدی ہوئے تھے اور اپنے علاقے میں اکیلے احمدی تھے۔ سارا گاؤں ان کا مخالف ہوگیا، انہیں گھر سے نکال دیا گیا اور جائیداد سے عاق کردیا گیا۔ مختلف طریقوں سے دبائو بھی ڈالاگیا کہ قادیانیت سے توبہ کرلو۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ چچا وغیرہ چاہتے تھے کہ ان کی نسل کو ہی ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ بیٹیوں کو گاؤں لے جاکر بیچنے کی اور بیٹے کوبارہا جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ شہید اپنی سروس کے سلسلے میں زیادہ تر باہر رہتے تھے۔ گاؤں کی مسجد کے مولوی نے فتویٰ دیا کہ جو کوئی رستم خان کی نسل کو ختم کرے گا وہ جنّتی ہوگا۔ ان کی بیگم کو ایک دو دفعہ کسی مرگ پر گاؤں جانا ہوا تو کھانے پینے کے برتن الگ ہوتے تھے۔ سب اچھوتوں والا سلوک کرتے تھے۔ کھانے میں زہر ملانے کی بھی ناکام سازش کی گئی۔
جب 9؍فروری 1966ء کو شہید کے والد کی وفات ہوئی تواُن کی لاش لے کر یہ فیملی گاؤں گئی۔ گاؤں میں مولوی نے اعلان کیا کہ لوگو! خوش ہو جاؤ، آج رستم خان قادیانی آیا ہے۔ اس کو قتل کردو اور اس کی اولاد کو علاقہ غیر میں بیچ دو یا پھر گاؤں میں بیاہ دو۔ اس کا ایک بیٹا ہے اس کو مار ڈالو اور اب جو بھی ثواب کمانا چاہتا ہے، بہادر بنے اور سامنے آئے کیونکہ جنّت کمانے کا بڑا ذریعہ سامنے آیا ہے۔
رات کو رستم شہیدکے والد کی تدفین سے پہلے جب یہ اعلان ہوا توانہوں نے اپنی بیگم کو بلاکر کہا کہ تم کسی طرح سے اپنے بھائیوں عبدالسلام اور عبدالقدوس کو اطلاع کرو کہ وہ تعزیت کے بہانے گاؤں آئیں اور بچوں کو ساتھ لے جائیں کیونکہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور مجھے بیٹیوں کا خطرہ ہے۔
دوسری طرف بیٹا عبدالحمید جو اُن دنوں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھتا تھا اور اٹھارہ سال کا تھا، دادا کی وفات پر گاؤں آ رہا تھا۔ جونہی وہ گاؤں پہنچا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک شخص منہ پر ڈھاٹا باندھے گاؤں کے باہر جہاں ویگن رُکتی ہے، ایک جگہ چھپ کر بیٹھا ہوا تھا۔ عبدالحمید نے اُس کو دیکھ لیا اور پیچھے سے جاکر پکڑ لیا۔ دیکھا تو وہ اُس کا چچا تھا۔ اس نے کہاچچا آپ؟۔ چچا گھبرا کر بولا کہ ہاں مَیں تمہاری حفاظت کے لیے بیٹھا تھا کیونکہ لوگ تمہیں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ اُس نے جب یہ واقعہ اپنی امی کو سنایا تو وہ اَور بھی پریشان ہوگئیں اور انہیں اور دوسرے بچوں کو ماموں کے آنے پر وہاں سے نکلوادیا۔
دوسرے روز 11؍فروری 1966ء کو رستم خان شہید صبح کی نماز کے لیے وضو کرنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے تو فائر کی آواز آئی۔ان کی بیگم یہ آوازسن کر باہر کی طرف بھاگیں۔ پیچھے سے رستم شہید کے بھائیوں نے پکڑلیا لیکن وہ چونکہ پہلے سے چوکنّا تھیں اس لیے اُن کو دھکا دے کر باہر نکل گئیں۔ باہر جاکر دیکھا تو دشمن اپنا کام کرچکے تھے اوران کے خاوند راہِ مولا میں شہید ہوچکے تھے۔ اب وہ لوگ بچوں کو ڈھونڈنے لگے لیکن بچے تو وہاں سے پہلے ہی نکل چکے تھے۔ان کی بیگم کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت دی۔ گاؤں کے مولوی نے آکر کہا کہ کِس پر رپورٹ درج کروگی؟ انہوں نے کہا یہ معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ تم سب لوگ راستے سے ہٹ جاؤ۔ میں اپنے خاوند کی لاش کو پشاور لے کے جاؤں گی اور وہاں ہماری جماعت کے لوگ دفن کریں گے۔ ایک بیوہ عورت کی دلجوئی کی بجائے تمام گاؤں والے ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ اس کو یہیں دفنا دو اور بچوں کو ہمارے سپرد کردو تاکہ ہم انہیں پھر مسلمان بنالیں۔
اُس وقت ان کی بیگم نے نعش کے سامنے ایک تقریر کی کہ آج تو میں اپنے خاوند کی لاش کو یہاں سے لے جاکر رہوں گی۔ لیکن یاد رکھنا کہ جس سچائی کو رستم خان نے پایا تھا، مَیں اور میری اولاد اُس سے مُڑنے والے نہیں۔ انشاء اللہ رستم خان کی نسل پھیلے گی۔ تمام لوگوں نے کہا کہ یہ عورت پاگل ہوگئی ہے، بجائے بَین کرنے کے بڑی بڑی باتیں کرتی ہے۔ اگلے دن ان کی بیگم شہید کی لاش لے کر پشاور آئیں اور وہاں تدفین ہوئی۔
ایک سال کے اندر اندر ان کے ایک بھائی جس نے ان کے بیٹے کو مارنے کی کوشش کی تھی، اُس کا جواں سال اکلوتا بیٹا کنویں میں ڈوب کر مر گیا۔ دوسرے چچا کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ تیسرے چچا کو ناگہانی موت آگئی۔ اور ایک چچا کا سارا گھر بارشوں سے گر گیا اور اُس کے دو بچے موقع پر ہی مَرگئے۔ جبکہ شہید مرحوم کے بیٹے کرنل عبدالحمید خٹک راولپنڈی میں رہتے ہیں اور پانچوں بیٹیاں امریکہ و کینیڈا میں اپنی فیملیوں کے ساتھ خوش و خرم ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں