مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب آف ٹوبہ ٹیک سنگھ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 17؍ستمبر 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍جنوری 2013ء میں مکرم عزیز احمد طاہر صاحب مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ اپریل 1964ء میں خاکسار اپنی ملازمت (بطور لیکچرار کالج) کے سلسلے میں ٹوبہ ٹیک سنگھ گیا تو مقامی مسجد میں سب سے پہلے جن دوستوں سے ملاقات ہوئی ان میں مکرم سید محمد اشرف شاہ صاحب بھی شامل تھے۔ آپ نے بڑی گرم جوشی سے مجھے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن مدد کی پیشکش کی۔ خاکسار نے رہائش کے حوالے سے اپنی مشکل کا ذکر کیا تو آپ نے مشورہ دیا کہ کرائے پر مکان لینے کی بجائے پانچ مرلے کا ایک پلاٹ خرید کر آغاز میں چند کمرے تعمیر کرکے اس میں رہائش اختیار کرلیں اور پھر بعد میں ضرورت کے مطابق مزید کمرے تیار کرلیں۔ آپ نے ہر ممکن مدد کا وعدہ بھی فرمایا۔ آپ کا مشورہ ہمیں اتنا پسند آیا کہ ہم نے موسم گرما کی تعطیلات میں ہی مکان تعمیر کرنے کا فیصلہ کرلیا اور شاہ صاحب کو ایک پلاٹ کی خریداری کے لیے کہہ دیا۔
اچانک ہمیں چند روز کے لیے شہر سے باہر جانا پڑا۔ پلاٹ کی خریداری کے لیے ہم شاہ صاحب کو ابتدائی رقم (بیعانہ)بھی دے کر نہ گئے تھے لیکن اس کے باوجود ہماری واپسی تک شاہ صاحب نے ہمارے لیے پلاٹ کاانتظام کررکھا تھا۔ چونکہ پیشہ کے اعتبار سے آپ ایک عرائض نویس تھے لہٰذا رقم کی ادائیگی کے بعد ضروری کارروائی ایک دو روز میں ہی مکمل کرلی اور موسم گرما کی تعطیلات میں ہی ہم اپنے چھوٹے سے ذاتی مکان میں شفٹ ہوگئے۔ شاہ صاحب کا ذاتی مکان بھی اسی گلی میں تھا اس لیے بہت قریبی گھریلو تعلقات پیدا ہوگئے۔ میری اہلیہ سرکاری سکول میں درس و تدریس سے تعلق رکھتی تھیں، چنانچہ شاہ صاحب کی بعض بچیوں کی پڑھائی کے معاملات میں وہ راہنمائی بھی کرتی رہیں۔
مکرم شاہ صاحب پانچ وقت نماز باجماعت ادا کرتے اور جماعتی مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں بھرپور تعاون کرتے۔ چندہ جات باقاعدگی سے بروقت ادا کرتے۔ اس کے علاوہ مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جب بھی رقم کی ضرورت ہوتی تو فراخدلی سے حصہ لیتے۔ آپ چونکہ آغاز ہی سے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مقیم تھے اس لیے مقامی جماعتی مسائل سے پوری طرح آگاہ تھے۔ ہمیشہ صائب مشورہ دیتے اور جماعتی وقار کا بہت خیال رکھتے۔ مرکز سے آنے والے نمائندگان کا بہت احترام کرتے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کرتے۔ مرکز سے آنے والے حکم پر پوری طرح عمل کرتے۔ آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لوگ احمدیوں کے کردار اور لین دین کے معاملات کے بارے میں اچھی رائے قائم کریں۔ خاکسار کا مشاہدہ تھا کہ احاطۂ کچہری میں دوسرے عرائض نویس آپ کابے حد احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح محلہ میں بھی سب ہی آپ کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے۔
خاکسار سیکرٹری مال تھا تو شاہ صا حب چندہ جات کی ادائیگی میں اس حد تک باقاعدہ تھے کہ اپنی روزانہ کی آمد کا دسواں حصہ کچہری سے گھر واپس جاتے وقت مجھے ادا کرتے ہوئے جاتے۔ آپ نے دیگر مختلف ذمہ داریوں کے علاوہ بطور سیکرٹری مال اور بطور صدر جماعت بھی خدمت کی توفیق پائی۔ جب آپ سیکرٹری مال تھے تو وصول شدہ چندہ بروقت مرکز میں ارسال کرتے۔ بطور صدر جماعت پانچ سال تک خدمت کی توفیق پائی اور علالت کے با وجود اپنے فرائض نہایت احسن رنگ میں ادا کرتے رہے۔ آپ وضعدار، بے لوث اور بااصول شخص تھے۔ زندگی کے معاملات میں اپنے وضع کردہ اصولوں پر ہمیشہ کاربند رہے۔ بے خوف اور نڈر احمدی تھے۔ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں کلمہ کیس میں ایک ماہ اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت بھی آپ نے پائی۔ آپ کے پاس جو لوگ بھی اپنے کام سے آتے ان کو تبلیغ کرنا اپنا فرض سمجھتے۔ باقاعدگی کے ساتھ کتب حضرت مسیح موعودؑ، دیگر دینی کتب اور روزنامہ الفضل کا مطالعہ کرتے۔
آپ محنت کی عظمت پر یقین رکھتے تھے۔ حکمت سے بھی شغف تھا۔ اکثر گھریلو استعمال کے لیے اور ضرورت مند مریضوں میں مفت تقسیم کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی دوا بناتے رہتے۔ مفرد ادویات کی تاثیر اور طریقۂ استعمال کے سلسلے میں اکثر بڑے مفید مشورے دیتے۔
محترم شاہ صاحب کی نیک اور خدمت گزار بیوی 11؍جنوری 2001ء کو اچانک وفات پاگئیں۔ جبکہ آپ خود دسمبر 2005ء میں ڈائریا اور نمونیا کے باعث بیمار ہوئے اور 18؍دسمبر کو اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ آپ موصی تھے۔ جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ آپ نے اپنے پیچھے دوبیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں