مکرم صوبیدار عبدالمنان دہلوی صاحب

روزنامہ الفضل ربوہ 19 جنوری 2012ء میں سابق افسر حفاظت خاص مکرم صوبیدار عبدالمنان دہلوی صاحب کی زندگی سے چند خودنوشت واقعات (مرسلہ: مکرم ریاض احمد چوہدری صاحب) شامل اشاعت ہیں۔ قبل ازیں محترم صوبیدار صاحب کے بارہ میں 18جون 2004ء اور 13اپریل 2007ء کے اخبارات کے الفضل ڈائجسٹ میں ذکرخیر کیا جاچکا ہے۔
٭ مکرم صوبیدار صاحب رقمطراز ہیں کہ عاجز 1942ء میں انبالہ چھاونی میں تھا۔ والد صاحب نے نکاح فارم قادیان سے وہاں بھیج دیئے۔ فارموں کی خانہ پُری کی گئی بعدازاں تصدیقی دستخط محترم صاحبزادہ کرنل مرزا داود احمد صاحب اور محترم کیپٹن شیر ولی خان صاحب سردار بہادر OBI نے کر دیئے۔ نکاح کا اعلان حضرت مولانا سیدمحمدسرور شاہ صاحبؓ نے مسجد مبارک قادیان میں کیا۔
23 دسمبر 1943ء کو میں شادی کے لئے قادیان گیا اور سٹیشن سے تن تنہا گھر پہنچا تو گھر پر بھی کوئی موجود نہیں تھا سوائے شکور بھائی کے جو چھوٹے سے بچے تھے۔ اُن کی زبانی معلوم ہوا کہ گھر کے تمام افراد ایک ولیمہ پر گئے ہیں۔ مَیں نے کپڑے تبدیل کئے اور سفید قمیص شلوار پہن کر سر پہ ٹوپی دھری گھر کو تالا لگایا۔ چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر اپنی دلہن لینے چل کھڑا ہوا۔ پہلے ولیمہ والے گھر پہنچا۔ میدان میں نیچے دریاں بچھا کر دلہا کے لئے گاو تکیہ رکھ کر دعوت ولیمہ کا انتظام ہوا تھا۔ میدان کے سامنے میرے سسرال والوں کا گھر تھا۔ دعوت ولیمہ سے فارغ ہو کر اپنے سسرال کی بیٹھک میں جا کر بیٹھ گیا۔ عصر کے وقت ایک ایک کپ چائے پی۔ گھر کے دس پندرہ افراد تھے۔ چائے کے بعد حضرت ڈاکٹر عبدالکریم صاحب نے دعا کروائی۔ پھر نمازیں اد اکرکے ٹانگہ پر سوار ہو کر دلہن کو ساتھ لے کر ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔ گھر پر کسی قسم کی رسم نہ ہوئی۔ دوسرے دن دوپہر بیٹھک میں فرش پر دسترخوان بچھاکر دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا اور نہایت سادگی سے سب کے سامنے کھانا رکھ دیا۔ دعوت ولیمہ کے بعد والد صاحب نے دعا کروائی اور یوں یہ تقریب بھی اختتام پذیر ہوئی۔
خدا کا شکر ہے کہ پانچ چھ سال کا عرصہ گزرا کہ میں نے بچیوں کے روبرو مقررہ حق مہر کی رقم مبلغ ایک ہزار روپیہ اہلیہ محترمہ فاطمہ بیگم صاحبہ کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور یوں بیوی کا مہر ادا کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوا۔
٭ 11 مئی 1962ء کو مَیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر آیا تو فیصل آباد سے ایک عزیز تشریف لائے ہوئے تھے اور گرمی کی شدّت سے پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ مَیں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو صرف ایک آنہ نکلا جو اپنے بیٹے عبدالرحمن مبشر کو دے کر برف لانے کو کہا۔ بیٹی شکر کا شربت بنا کر لائی۔ مہمان نے فرمائش کردی کہ کاش اس میں ستّو ہوتے تو کیا ہی لطف آتا۔ یہ فرمائش سن کر خیالات کی دنیا میں پرواز کرتا کہیں سے کہیں نکل گیا۔ اوّل تو میری جیب خالی تھی اوراگر پیسے ہوتے بھی تو ربوہ میں ان دنوں ستّو کہاں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ پر کسی نے دستک دی۔ بچے نے دروازہ کھولا تو سامنے حضرت دین محمد صاحبؓ کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک پوٹلی بچے کو پکڑاتے ہوئے فرمایا کہ صوبیدار کو یہ ستو دے دیں۔ (بس پھر کیا تھا میرا دل اسی وقت پگھل کر موم کی طرح آستانہ رب العزت پر بہنے لگا۔ ایک طرف اپنی بے مائیگی دوسری طرف مہمان کی فرمائش۔ رکھ لی مرے خدا نے میری بے کسی کی لاج۔
٭ 1954ء میں ایک دن مَیں اپنی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ پر حملہ ہونے کی اطلاع ملی۔ میری تو جان نکل گئی، فوراً مسجد مبارک کی طرف بھاگا۔ وہاں دیکھا تو حملہ آور چاروں شانے چت لیٹا ہوا تھا اور حضورؓ کی طرف سے حکم تھا کہ اسے کچھ نہ کہا جائے۔ بہرحال حضور کا حکم سرآنکھوں پر مقدّم تھا۔ دل تھام کر رہ گیا۔ محراب میں اور گھر کی سیڑھیوں پر خون ہی خون پڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد میں نے چوبیس گھنٹے حضورؓ کے قریب میں ہی ڈیوٹی مقدّم کرلی اور ملاقاتوں کے وقت حضورؓ کے قریب کھڑے ہوکر اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے دن رات کے لئے اپنے آپ کو پابند کرلیا۔ ایک دن جب ملاقاتیں ختم ہوئیں تو حضورؓ نے مولوی عبدالرحمن صاحب انور سے آفس آرڈر بُک میں لکھوایا کہ صوبیدار عبدالمنان کو ایک ماہ کے لئے افسر حفاظت ڈیوٹی پر باشرح تنخواہ پر رکھا جاتا ہے۔ نیچے حضورؓ نے دستخط فرما کر فرمایا: انجمن میں اس کی نقل بھیج دو۔
اس کے بعد حضور کا زخم مندمل ہونے تک میں نے اپنی چارپائی گھر سے لا کر حضور کی سیڑھیوں کے نیچے بچھا دی اور یوں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر موجود رہتا تھا۔
٭ یکم دسمبر 1958ء سے جب انجمن نے باقاعدہ طور پر مجھے آفیسر حفاظت خاص کی ڈیوٹی پر متعین کر دیا تو میری یہ حالت تھی کہ حضورؓ کے مکانات کے گرد چوبیس گھنٹے موجود رہتا۔ اپنا آرام بھول گیااور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں دن رات ایک کردیا۔ مسلسل ڈیوٹی کے بعد روٹی کھانے کے لئے گھر جاتا تو جاکر چارپائی پر گر جاتا۔ بچے دبا رہے ہوتے میری بیوی بیٹھی ہوئی روٹی کے نوالے بنا بنا کر میرے منہ میں ڈالتی جاتی تھی۔ میں آرام سے روٹی بھی کھاتا رہتا پھر وقت بچانے کے لئے ڈیوٹی پر پہنچ جاتا اور وہاں جا کرپانی پی لیتا۔
٭ ایک روز کا ذکر ہے کہ حضور اپنے گھر کی سیڑھیوں سے اتر کر نماز کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔ نیچے ایک طرف مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری کھڑے ہوئے تھے اور دوسری طرف یہ عاجز دھوپ کی عینک لگائے کھڑا تھا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ صوبیدار صاحب نے عینک شاید اس لئے لگا رکھی ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ عینکوں کا کاروبار کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ حضور مَیں نے تو عینک اس لئے لگائی ہے کہ کوئی یہ نہ دیکھ سکے کہ میں کسے دیکھ رہا ہوں اور میں ہر طرف دیکھ سکوں۔ میرا یہ جواب سن کر حضور مسکراتے ہوئے مسجد مبارک میں داخل ہوگئے۔
٭ ایک دن حضورؓ مسجد مبارک میں نماز پڑھا کر گھر میں داخل ہونے لگے تو اس وقت محترم سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ آپ کے ہمراہ تھے۔ حضور نے فرمایا: داؤد! آپ صوبیدار عبدالمنان کو تین دن کے لئے کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیں تاکہ یہ تین دن تک سوتے رہیں۔ ان کے خلاف شکایت ہے کہ یہ سوتے نہیں ہیں۔ عاجز نے عرض کیا کہ حضور! آپ کا ارشاد سر آنکھوں پر۔ مگر حضور مَیں سونے کے لئے نہیں بلکہ جاگنے کے لئے لایا گیا ہوں۔ میری اس جسارت کو حضور نے ازراہ شفقت برداشت فرمایا اور چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
٭ ایک روز ملاقات کے وقت لاہور سے دانتوں کے ڈاکٹر بھی آئے ہوئے تھے۔ حضور کی نظر جب اُن پر پڑی تو فرمایا کہ آج رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ مجھے نرم نرم مسواکیں دے کر کہہ رہا ہے کہ آپ یہ مسواکیں استعمال کریں، بہت مفید ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: واقعی نیم کی مسواک دانتوں کے لئے بہت مفید ہے۔ مَیں نے اسی وقت احمد دین باڈی گارڈ کو محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی کوٹھی بھیج کر نرم نرم دو عدد مسواکیں منگوا کر تیار کرکے حضور کی خدمت اقدس میں پیش کر دیں۔ حضورؓ نے خوشی سے قبول کرتے ہوئے فرمایا: اچھا صوبیدار صاحب وہ فرشتہ آپ ہیں۔ عاجز حضور کا ارشاد سن کر مسکرا دیا اور دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔
اس پر ملاقات کرانے والے کارکن نے حضورؓ سے کہا کہ میں نے نوٹ کیا تھا کہ ملاقاتوں کے معاً بعد مسواکیں منگوا کر حضور کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ خدا نے جسے فرشتہ بنانا تھا وہ بن گیا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ انسان پوری طرح سے صحبت صالحین سے فائدہ اٹھائے اور اہل اللہ کے منہ سے جب بھی کوئی بات سنے تو اس پر فوراً عمل کرے۔
اس کے بعد مجھے کافی مدّت بلاناغہ مسواکیں منگواکر حضور کی خدمت اقدس میں پیش کرنے کی توفیق ملی۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے وقت میں دس دس مرلہ زمین کے چند قطعات تقسیم کرنے کے لئے محترم چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیداد تشریف لائے اور حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہونے سے قبل مجھے کہا کہ میں حضور کی خدمت میں سفارش کروں گا کہ صوبیدار صاحب بھی اس کے مستحق ہیں۔ میں نے اُن کو قطعی طور پر منع کردیا کہ آپ ہرگز میری سفارش نہ کریں، میں ہرگز نہیں لوں گا۔
میں نے دل میں خیال کیا میں اس در پر ذاتی مفاد کے لئے نہیں لایا گیا ہوں بلکہ خدمت اور محض یہاں رہ کر خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والا ہوں۔ ؎

یہ زر و مال تو دنیا میں ہی رہ جائیں گے
حشر کے روز جو کام آئے وہ زر پیدا کر

٭ کوہ مری میں حضورؓ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد کار میں تشریف فرما تھے کہ کچھ احباب نے حضور سے باتیں کرنی شروع کر دیں۔ میرے داماد اپنی بیٹی کو گود میں لے کر پاس ہی کھڑے تھے اور وہ مجھ پر بار بار جھک کر خواہش کررہی تھی کہ نانا جان کی گود میں چلی جاؤں لیکن مَیں بالکل اس طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔ اس پر حضرت بیگم صاحبہ نے حضورؓ سے کہا کہ میں اپنی نواسی کو بھی دیکھوں اور پیار کروں۔ اس پر حضور نے فرمایا کہ آپ بچی کو کیوں پیار نہیں کرتے۔ تب مَیں نے اُس کو قریب بلاکر پیار کیا اور اُس کے ہاتھ میں کچھ پیسے دے کر خوش کردیا۔
بظاہر تو یہ بات معمولی نظر آتی ہے مگر مَیں حضرت بیگم صاحبہ کے اس حسن سلوک کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے عاجز کو توجہ دلا کر الوداعی پیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔
٭ موسم گرما میں حضور گھوڑاگلی کے بنگلہ میں مقیم تھے۔ اس موقع پر راولپنڈی سے میرے داماد اور بیٹی ملاقات کے لئے آئے۔ میں نے اپنی بیٹی کو حضرت بیگم صاحبہ کے پاس ملاقات کے لئے بھیج دیا۔ حضرت بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ دونوں کے لئے مَیں اندر سے کھانا بھجواوں گی۔ نیز اُسے 51 روپے دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بھی ہماری بیٹی ہے۔ اور اپنے بچوں کا سا پیار کیا جس سے ہمارے دل سے بے اختیار دعائیں نکلیں۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ یورپ کے پہلے دورے سے واپسی پر کراچی میں اپنی قیامگاہ کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں حضرت بیگم صاحبہ حضورؒ سے کہنے لگیں: دیکھتے ہیں صوبیدار صاحب اب کتنے دن ٹھہرتے ہیں، ربوہ پہنچنے پر کہیں واپس لندن نہ چلے جائیں۔
مَیں نے عرض کی میں حضور کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جاؤں گا، تا زندگی آپ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔
حضرت بیگم صاحبہ کے فرمان سے میں نے محسوس کیا کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ مَیں حضورؒ کے ساتھ رہوں۔ اس کے بعد جب تک صحت نے ساتھ دیا میں حضور کی خدمت کرتا رہا۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جب صاحب فراش تھے تو مَیں حضور کے گھر کی ڈیوڑھی میں ڈیوٹی دے رہا تھا۔ اتنے میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ باہر تشریف لائے ۔ آپ کے ہاتھ میں کھانے کا ایک بڑا برتن تھا۔ فرمایا کہ صوبیدار صاحب یہاں کوئی پہرہ دار ہے؟ میں نے عرض کیا: پہریدار ایک پیغام لے کر گیا ہوا ہے۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ یہ کھانا سید داؤد صاحب کے گھر پہنچانا ہے۔ مَیں نے بے تکلّفی سے عرض کی: مَیں پہنچا دیتا ہوں لیکن آپ کو یہاں پر بیٹھنا پڑے گا، کوئی پہرہ دار آجائے تو اس کے حوالہ کرکے تشریف لے جاسکتے ہیں۔
حضرت میاں صاحبؒ نے حامی بھرلی۔ حضرت میاں صاحبؒ اور بیگم صاحبہ ڈیوڑھی پر موجود تھے۔ اور جب تک پہریدار نہ آگئے، جگہ نہ چھوڑی۔ پھر راستے میں مجھے ملے تو فرمایا: آپ کے حکم کی تعمیل کر آیا ہوں اب آپ مطمئن رہئے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ مگر ساتھ ہی ندامت بھی ہوئی اور میاں صاحب کی عظمت کا اَنمٹ نقش میرے دل و دماغ پر ثبت ہو گیا کہ حضور کی ڈیوڑھی کے ایک ادنیٰ خادم کے غیرمہذبانہ انداز گفتگو کو حضرت میاں صاحبؒ نے خندہ پیشانی سے نہ صرف برداشت کیا بلکہ بنظر استحسان دیکھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں