مکرم قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم قاضی بشیر احمد صاحب کھوکھر ایڈووکیٹ یکم ستمبر 1930ء کو مکرم قاضی کلیم احمدصاحب آف شیخوپورہ کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1974ء میں آپ وکالت کا امتحان پاس کرکے پنجاب بار کونسل کے ممبر بن گئے۔ آپ بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ تنگدستی کے باوجود وصیت کے چندہ کی ادائیگی اور جماعتی ذمہ داریاں خوب نبھاتے تھے۔ 1974ء میں مسجد ہنجراں والا کے خطیب اللہ دتہ اور دوسرے مولویوں نے ایک احمدی خاتون کی تدفین کے وقت بہت فساد مچایا۔ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران آپ کسی کام سے گھر سے باہر نکلے تو مفسدین نے آپ کو شدید زدوکوب کرنے کے بعد ایک تندور میں پھینک دیا۔ مگرعورتوں کے شور مچانے پر کچھ آدمیوں نے آپ کو تندور سے باہر نکال لیا اور آپ اعجازی طورپر بچ گئے۔ 1988ء میں جلسہ سالانہ لندن میں بھی شمولیت کی توفیق پائی۔
20؍اکتوبر1989ء کو ایک بیرنگ خط میں آپ کو احمدیت نہ چھوڑنے کی صورت میں سانحہ چک سکندرکاحوالہ دے کر قتل کی دھمکی دی گئی۔ اس کے تین ماہ بعد ایک روز جب آپ کچہری سے اپنی سائیکل پر گھرآ رہے تھے تو موٹرسائیکل سوار دو مجرموں نے آپ پر چاقوؤں کے متعدد وار کئے اورفرار ہو گئے اور آپ کسی طبّی امداد کے ملنے سے پہلے ہی شہید ہوگئے۔ آپ کی عمر ساٹھ سال تھی اور آپ بطور سیکرٹری جائیداد شیخوپورہ فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ پسماندگان میں آپ نے بیوہ کے علاوہ ایک لڑکا اور چار لڑکیاں یادگار چھوڑیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں