مکرم محمد حسین صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 17 جولائی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرم محمد حسین صاحب شہید کا ذکرخیر ان کی بھانجی مکرمہ بشریٰ ریاض صاحبہ نے کیا ہے۔
مکرم محمد حسین صاحب شہیدگورداسپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد بہت بڑے تاجر تھے اور بہت نیک اور غریب پرور بھی تھے۔ آپ کے بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی اور والدہ سخت علیل ہوگئیں۔ شہید مرحوم کی پرورش بڑی بہن (مضمون نگار کی والدہ)نے کی۔ دنیاوی تعلیم سے محروم رہے تھے لیکن قرآن کریم پڑھنا اور نماز وغیرہ سیکھ لی تھی۔ شادی کے بعدبڑی بہن کوئٹہ منتقل ہو گئیں تو کچھ عرصے کے بعد آپ بھی ان کے پاس کوئٹہ آگئے۔ دو سال بعد آپ کے بہنوئی یعنی میرے والد مکرم شیخ فضل حق صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ وہ بعدازاں امیر ضلع سِبّی بھی رہے جبکہ میری والدہ اور ماموں نے اس کے دو سال بعد اکٹھے بیعت کی۔
جب حضرت مصلح موعودؓ کوئٹہ تشریف لے گئے تو مکرم محمد حسین صاحب شہید کو بھی حضورؓ کی خدمت کرنے اور خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ایک موقع پر جب احمدیہ پارک ہاؤس میں پانی کے اخراج کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضورؓ نے فرمایا: ’’محمدحسین کو بلائیں وہی اس مسئلے کو حل کرے گا‘‘۔ چنانچہ آپ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ مسئلہ حل کردیا۔ حضورؓ نے فرمایا: مَیں نہ کہتا تھا کہ محمد حسین ہی اس مسئلے کو حل کرے گا۔ اسی طرح جب حضورؓ کو بتایا گیا کہ احمدیہ مسجد کو محمد حسین نے پینٹ کیا ہے تو حضورؓ نے فرمایا کہ اس رنگ و روغن میں محمد حسین کا خلوص بھی ٹپک رہا ہے۔ آپ یہ باتیں یاد کرتے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔
میرے والدین چاہتے تھے کہ آپ کی شادی کسی احمدی گھرانے میں کی جائے لیکن میرے بڑے ماموں نے زور دے کر اپنی سالی سے اُن کی شادی کروادی۔ خداتعالیٰ نے آپ کو آٹھ بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔لیکن عقیدے کے فرق کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ اولاد بھی تقسیم ہوگئی اور اُن کے رشتوں کے مسائل بھی ہوئے۔ آپ کو اگر کوسا جاتا کہ باپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے بیٹی کا رشتہ ردّ کردیا جاتا ہے تو آپ بے اختیار رودیتے اور کہتے کہ تم لوگ مجھے سچ کی سزا دے رہے ہو لیکن مَیں اپنے آپ کو احمدی کہنے سے ہرگز باز نہیں آؤں گا۔
شہید مرحوم باقاعدہ نمازی اور تہجدگزار تھے۔ کیسے ہی حالات ہوں کبھی غیراحمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھتے۔ سچے، معاملہ فہم اور پُرخلوص انسان تھے۔ کبھی غصے میں نہ آتے۔ایک بیٹی کینسر میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئی تو بہت صبر کا نمونہ دکھایا۔
بوقت شہادت آپ کی عمر 80 سال تھی۔ گرنیڈ لگنے اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے شہادت ہوئی۔ آپ کی شہادت کے بعد تدفین کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا۔ چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابو ہمارے ہی قبرستان میں دفن ہوں گے اور کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔ اگرچہ بڑے بیٹے، جنہوں نے بعد میں احمدیت بھی قبول کرلی، اُن کی خواہش تھی کہ تدفین ربوہ میں ہو۔ لیکن پھر فساد کے ڈر سے لاہور کے ایک قبرستان میں امانتاً تدفین کی گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں