مکرم مستری محمد شریف صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 4 جنوری 2019ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ29ستمبر 2012ء میں مکرم مستری محمد شریف صاحب آف سرگودھا کا ذکرخیر مکرم چودھری حمید احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
ضلع سرگودھا کے چک نمبر 35 جنوبی میں احمدیت کا نفوذ (مضمون نگار کے پڑدادا) حضرت چودھری مولابخش صاحبؓ نمبردار کے ذریعہ ہوا جنہیں قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی سعادت ملی پھر اُن کی تبلیغ کے ذریعہ گاؤں کے چند گھر احمدی ہوگئے۔ اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے محترم چودھری ہدایت اللہ صاحب نمبردار (مضمون نگار کے دادا) نے اس مشن کو جاری رکھا۔ اُن کو تبلیغ کا جنون تھا۔ اُن کی تبلیغ سے بھی کئی گھرانے احمدی ہوئے۔ محترم مستری محمد شریف صاحب بھی اُن کے زیرتبلیغ رہے نیز اپنے ایک احمدی رشتہ دار محترم مستری فقیر محمد صاحب کی بھی مسلسل تبلیغ کے زیراثر شدید مخالفت کرنے کے بعد آخرسچّی خوابوں کے ذریعہ راہنمائی پالی اور احمدیت قبول کرلی۔ اس پر آپ کی شدید مخالفت ہوئی حتٰی کہ بیوی بھی چھوڑ کر چلی گئی۔ کچھ عرصہ بعد بیوی واپس گھر تو آگئی لیکن اُس نے کبھی احمدیت قبول نہ کی۔ ایک بیٹا تھا جو آپ کی خوبیوں کا تو معترف تھا لیکن اُس نے بھی ساری زندگی احمدیت قبول نہ کی۔ تاہم آپ نے ہر ابتلا کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اور ہمیشہ نظام جماعت سے اپنا مضبوط تعلق برقرار رکھا۔ نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے اور اپنی زندگی میں ہی ادائیگی کردی۔
محترم مستری محمد شریف صاحب سخت محنت مزدوری کرنے کے باوجود پنجوقتہ نماز باجماعت اور تہجد کے عادی تھے۔ اکثر سچّے خواب دیکھتے۔ کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی تہجّد کے لئے اٹھنے میں تاخیر ہوجائے تو ایک غیبی آواز نام لے کر آپ کو اٹھادیتی ہے۔ آپ گو کہ مالی لحاظ سے کمزور تھے لیکن لازمی چندہ جات ہمیشہ اوّل وقت میں ادا کرتے اور دوسری مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتے۔ اگرچہ معمولی تعلیم حاصل کی تھی لیکن دینی رسائل اور کتب کا بہت مطالعہ تھا اور اختلافی مسائل کا بہت علم تھا۔ احمدی اور غیراحمدی، سبھی آپ کی ایمانداری اور شرافت کے گواہ تھے اور آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔
آپ بہت سادہ طبیعت، ملنسار اور مخلص انسان تھے۔ وفات سے ڈیڑھ سال قبل کسی کیڑے کے کاٹنے کی وجہ سے پاؤں میں ورم ہوگیا جو پھر ناسور بن گیا اور ڈاکٹروں کو ایک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ آپ نے علالت کا سارا عرصہ نہایت صبر و شکر اور ہمّت کے ساتھ گزارا، کبھی شکوہ کا کلمہ زبان پر نہیں لائے۔ جب تک صحت نے اجازت دی تو مسجد آکر نماز ادا کرتے رہے۔ 27؍مارچ 2012ء کو قریباً اسّی سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ وفات سے قبل آپ نے اپنی بیوی کو وصیت کی کہ آپ کی نعش احمدیوں کے سپرد کردی جائے جو بوجہ موصی ہونے کے ربوہ میں آپ کی تدفین کریں گے۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کے بیٹے نے اپنے رشتہ داروں کے زیراثر کہا کہ ہم ہی جنازہ پڑھیں گے اور گاؤں میں ہی تدفین ہوگی۔ تاہم اس موقع پر آپ کی بیوی نے جرأت دکھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق عمل کروایا۔ چنانچہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں