مکرم ملک ظفر احمد مجوکہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2002ء میں مکرم ملک ظفر احمد مجوکہ صاحب کا تفصیلی ذکر خیر اُن کی بیٹی مکرمہ شازیہ ظفر صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم ملک ظفر احمد مجوکہ صاحب ریٹائرڈ مینیجر نیشنل بینک سرگودھا تھے اور آپ کی رہائش گاؤں حویلی مجوکہ میں تھی۔ روزانہ لمبا سفر اور پیدل تین میل چل کر اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرتے لیکن اس کے باوجود فجر اور عشاء کی نمازیں مسجد میں جاکر ادا کرتے اور گھر میں بھی اس پہلو سے نگرانی رکھتے۔ خود بچپن سے ہی تہجد گزار تھے اور نماز تہجد اور فجر کے درمیانی وقت میں تلاوت قرآن کریم کا التزام رکھنے والے تھے۔ سخت ملازمت کے باوجود بھی روزے رکھتے۔
بچپن میں تعلیم کی غرض سے ربوہ بھجوائے گئے تھے۔ میٹرک کے بعد واپس چلے گئے اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی مدد اور دعاؤں سے ملازمت حاصل کی۔ خداتعالیٰ پر کامل یقین تھا اور آپ کے بہت سے کام معجزانہ طور پر ہوا کرتے تھے۔ ستمبر 1993ء میں ہم ربوہ میں کرایہ کے مکان میں شفٹ ہوئے۔ ربوہ کے آغاز سے آپ یہاں رہائش کے لئے مکان خریدنے کی خواہش رکھتے تھے اور اس کے لئے دعائیں کرتے تھے لیکن کبھی بھی اتنی رقم نہیں ہوئی کہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنا سکتے۔ آخر پچاس سالہ دعا اور صبر نے یہ صورت پیدا کی کہ آپ کو گولڈن ہینڈ شیک کی پیشکش ہوئی اور اس میں اتنی رقم ملی کہ آپ ایک عمدہ مکان خرید سکیں۔ ساری زندگی کبھی رزق کی تنگی کا احساس نہیں ہوا۔ اکثر ضرورت کے وقت کوئی صاحب کچھ رقم دے کر کہتے کہ انہوں نے یہ آپ سے قرض لی تھی جو واپس کر رہے ہیں۔ اسی طرح کبھی انعامی بانڈ نکل آتا۔
قریباً بارہ سال قبل آپ کے ایک غیراحمدی دوست نے آپ کو بلاکر کہا کہ مَیں نے اپنی ڈیڑھ سو ایکڑ زرعی زمین فروخت کرنی ہے اور آپ ہی کو کرنی ہے۔ آپ نے کہا کہ نہ مجھے زمین خریدنی ہے اور نہ میرے پاس پیسے ہیں۔ وہ اصرار کرنے لگا حالانکہ اُسے اُس زمین کے کئی دوسرے گاہک زیادہ رقم دینے کو تیار تھے لیکن اُس نے آپ کو بہت کم داموں میں زمین بیچ دی۔ خدا تعالیٰ نے اُس میں ا تنی برکت ڈالی کہ ہر سال زمین سے آمد پہلے سے کئی گنا زیادہ ہونے لگی ۔ پہلا مالک بھی حیران ہوتا اور کہتا کہ یہ رزق آپ ہی کا نصیب تھا۔
آپ کی ساری زندگی خدا کے فضلوں سے عبارت تھی۔ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں روزانہ کئی گھنٹے کا سفر درپیش ہوتا جو بس کے ذریعہ ہوتا۔ ایک روز ایک نوجوان نے آپ سے کہا کہ آپ اگلی سیٹ پر چلے جائیں۔ آپ آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ جب بس چلی تو ایک سریا والا ٹرک پاس سے گزرا جس کا ایک سریا باہر نکلا ہوا تھا جو اُس نوجوان کے پیٹ میں گھس گیا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ ایک اَور موقع پر آپ کی بس حادثہ کا شکار ہوئی اور کئی لوگ فوت ہوگئے اور بہت سے زخمی ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔
آپ بہت رحمدل اور دوسروں کی ضرورتوں کا خیال رکھنے والے تھے۔ ایک دوست نے آپ سے قرض لینا شروع کیا جو بڑھ کر پچاس ہزار سے بھی تجاوز کرگیا۔ اُس کے مالی حالات اچھے نہ رہے تھے۔ ایک مرتبہ وہ آکر قرض کی واپسی میں تاخیر کے لئے معذرت کرنے لگا تو آپ نے کہا کہ مَیں تمہیں ساری رقم معاف کرتا ہوں، تم اس کے لئے پریشان نہ ہونا۔ اُس کے آنسو نکل آئے۔ آپ کی یہ خوبی آپ کو ورثہ میں ملی تھے۔ آپ کے والد محترم ملک حسن مجوکہ صاحب بھی علاقہ بھر میں بوقت ضرورت ہر ایک کی مدد کرنے پر مشہور تھے۔ وہ اپنے مقروض کو دیکھتے تو راستہ بدل لیتے تاکہ اُسے شرمندگی نہ ہو۔ اپنی وفات کے وقت انہوں نے اپنی اولاد کو بلاکر وصیت کردی کہ جس نے بھی اُن کی رقم ادا کرنی ہے، اُس سے یا اُس کی اولاد سے کبھی تقاضا نہ کیا جائے۔ یہی حال مکرم ظفر مجوکہ صاحب کا تھا ، آپ نے کبھی کسی کو کچھ دے کر واپسی کا تقاضا نہیں کیا اور کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا سوائے اشد مجبوری کے۔
ایک بار ایک عورت نے آکر بتایا کہ اُسے خواب میں آپ نے اتنی رقم دی ہے۔ اُس نے یہ خواب حضرت مصلح موعودؓ کی ایک بیٹی کو بتایا جس نے اُسے آپ کے پاس بھیج دیا۔ آپ نے فوراً اُس کو اتنی رقم ادا کردی۔ مَیں نے کہا کہ ممکن ہے وہ عورت غلط بیانی کررہی ہو۔ آپ نے کہا کہ اُس کی اپنی نیت ہوگی لیکن اُس نے میرے خلیفہ کی بیٹی کا حوالہ دیا ہے، مَیں کیسے اُسے خالی ہاتھ لَوٹادوں۔
آپ لمبا عرصہ حویلی مجوکہ کے صدر رہے اور اپنی آٹھ مرلہ زمین مربی ہاؤس بنانے کے لئے صدرانجمن احمدیہ کے نام منتقل کردی۔ 1974ء میں کئی بے گناہ احمدیوں کی ضمانتیں کروائیں۔ کئی احمدیوں کی بنک کی دستاویزات فسادات میں ضائع ہوگئی تھیں، آپ نے اُن کے نئے کاغذات بناکر دیئے۔
آپ کئی بیماریوں میں مبتلا تھے لیکن کبھی بے صبری نہیں دکھائی۔ 1990ء میں جب آپ کو پہلا دل کا حملہ گاؤں میں ہوا تو رات کا وقت تھا۔ طبّی امداد کی کوئی صورت نہیں تھی۔ رات کو وقفہ وقفہ سے تین بکرے صدقہ کئے گئے۔ خدا تعالیٰ نے صبح تک معجزانہ شفا عطا فرمادی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں