مکرم منظور احمد صاحب کوئٹہ شہید

روزنامہ الفضل ربوہ 13 نومبر2012 ء کی ایک خبر کے مطابق سیٹلائٹ ٹائون کوئٹہ میں مذہبی منافرت کی بِنا پر 11نومبر 2012ء کو ایک نوجوان احمدی تاجرمکرم منظور احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب کو دو نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ آپ کی پیشانی پر دو گولیاں لگیں جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی۔ آپ کی عمر 33 سال تھی اور آپ جماعت احمدیہ کوئٹہ کے نمایاں فرد تھے ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16نومبر 2012ء میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خانصاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھاگو صاحبہ کے ذریعہ ہوا جو ننگلؔ نزد قادیان کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ضلع ساہیوال میں مقیم رہا اور پھر 1965ء میں کوئٹہ چلاگیا۔ منظور احمد صاحب شہید 1978ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد 1996ء میں اپنا کام شروع کیا اور ہارڈویئر کی دکان بنائی۔ تھوڑے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں نمایاں برکت دی۔
مرحوم 11؍نومبر 2012ء کی صبح پیدل گھر سے دکان پر جارہے تھے کہ دو موٹرسائیکل سوار افراد آئے جن میں سے ایک شخص موٹر سائیکل سے اتر کر آپ کی طرف بڑھا اور گولی چلانے کی کوشش کی لیکن قریب ہونے کی وجہ سے آپ کی اُس سے مڈھ بھیڑ ہوگئی۔ چونکہ وہ دو تھے اس لئے آپ وہاں سے پیچھے گھر کی طرف بھاگے۔ لیکن گھر کے گیٹ کے ستون کے ساتھ گھٹنا ٹکرایا جس کی وجہ سے آپ نیچے گر گئے۔ اور حملہ آور نے آپ کے سر پر دو گولیاں چلائیں جس سے موقع پر ہی شہادت ہوگئی۔
مرحوم کو کافی عرصہ سے مذہبی مخالفت کا سامنا تھا۔ ارد گرد کے دکاندار بھی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ علاقہ میں کچھ عرصہ سے احمدیوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم منظّم انداز میں چلائی جا رہی تھی۔ نیز ایک مسجد میں ڈیرہ غازی خان سے ایک مولوی آکر احمدیوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتا رہتا تھا اور پورے علاقے میں اشتعال انگیز لٹریچر تقسیم کر رہا تھا۔
2011ء میں شہید مرحوم کی دوکان سے ملحقہ ایک معاند احمدی کی دکان میں آگ لگ گئی اور اُس کا تمام سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ شہید مرحوم کی دکان براہِ راست آگ کی لپیٹ میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں ہرلحاظ سے اُس کو محفوظ رکھا حتیٰ کہ باہر پڑے ہوئے پلاسٹک کے بورڈ بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس کو دیکھ کر سب حیران تھے لیکن یہ چیزیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔
شہید مرحوم کا اپنے پورے خاندان سے نہایت شفقت اور محبت کا سلوک تھا۔ خاندان میں کسی کو بھی کسی مالی معاونت کی ضرورت ہوتی تو آپ اُس کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ اگر مرکز سے جماعتی مہمان آتے تو اُن کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے۔ چالیس پچاس افراد کے پروگرام کا گھر پر انتظام کرلیتے اور خود اُن کے کھانے کا انتظام بھی کرتے۔
مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اس وقت نائب قائد حلقہ، سیکرٹری وقفِ جدید اور سیکرٹری تحریکِ جدید کے علاوہ حلقہ کے سیکیورٹی اور اصلاحی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ 2007ء سے نظامِ وصیت میں شامل تھے۔
شہید مرحوم نے پسماندگان میں والد مکرم نواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ شبانہ منظور صاحبہ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عمر چھ سال نیز ایک بھائی مسعود احمد صاحب اور ہمشیرگان یادگار چھوڑے ہیں۔ شہید مرحوم کی والدہ وفات پا چکی ہیں، دوسری والدہ حیات ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں