مکرم منیر حامد صاحب

جماعت احمدیہ امریکہ کے صد سالہ خلافت سووینئر میں مکرم منیر حامد صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ امریکہ کا تعارف بھی شامل اشاعت ہے۔
مکرم منیر حامد صاحب فلاڈیلفیا میں قیام رکھتے ہیں اور خلافت کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار آپ کی باتوں سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ آپ کا حضرت مصلح موعودؓ سے پہلا رابطہ 15 سال کی عمر میں 1957ء میں اُس وقت ہوا جب آپ واشنگٹن میں حضورؓ کی کتاب ‘The life of Muhammad’ پڑھ رہے تھے۔ اس دوران آپ کو کشفی نظارہ نظر آیا جب آپ ایک کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔ اس کشف میں آپ کو وہی منظر دکھائی دیا جو آپ نے کتاب میں پڑھا تھا۔ اس کا ذکر جب آپ نے مربی سلسلہ سے کیا تو انہوں نے حضورؓ کی مزید کتب مطالعہ کیلئے دیدیں۔ اور اس واقعہ کے بعد آپ نے باقاعدگی سے حضورؓ کو خط بھی لکھنے شروع کر دیئے جن کے جوابات آج بھی آپ کے پاس موجود ہیں۔ اگرچہ آپ حضورؓ سے کبھی نہیں ملے لیکن اُن لوگوں سے مل کر جو حضورؓ سے ملاقات کرچکے تھے اور حضورؓ کی تصاویر دیکھ کر آپ ہمیشہ حضورؓ کے چہرے پر موجود تأثرات میں محو ہوجاتے۔ آپ کو نہ صرف حضورؓ سے ملاقات کی بلکہ مبلغ بننے کی بھی شدید خواہش تھی۔ چنانچہ اس خواہش کے پیش نظر آپ تین سال تک واشنگٹن میں بھی رہے۔ بعد ازاں آپ نے مبلغ بننے کا ارادہ تبدیل کردیا لیکن خدمت دین کا یہ موقع گنواکر وہ آج بھی ایک پچھتاوے کا شکار ہیں۔
مکرم منیر حامد صاحب عیسائی والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں صرف حضرت عیسیٰؑ کو ہی ہادیٔ مذہب کا درجہ حاصل تھا اس لئے آپ کو خلافت کے نظام کو سمجھنے میں کئی سال لگے۔ جس کے بعد خلیفۂ وقت کا انتہائی احترام اور اطاعت کا لطف آپ کی ذات کا حصہ بن گیا۔
آپ پہلی بار مجلس شوریٰ کے رکن بن کر اپریل 1982ء میں پاکستان گئے اور آپ کا پکّا ارادہ تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو امریکہ میں مقیم پاکستانی احمدیوں اور دیگر عہدیداروں کی بعض کمزوریوں کے بارہ میں بتائیں گے تاکہ حضورؒ امریکہ کے حالات کو بہتر طور پر جان سکیں۔ لیکن جیسے ہی آپ حضورؒ سے ملاقات کے لئے کمرہ میں داخل ہوئے تو آپ کا ذہن گویا آپ کا ساتھ چھوڑ گیا اور آپ زاروقطار رونے لگے اور مسلسل حضور کے کندھے کے ساتھ لگ کر تین منٹ تک روتے رہے جبکہ حضورؒ آپ کے کندھے پہ ہاتھ پھیر کر تسلی دیتے رہے۔ پھر حضورؒ نے خود دریافت فرمایا کہ کیا آپ مجھے کچھ بتانا چاہتے ہیں؟ تو آپ کا جواب تھا: نہیں ۔ تاہم آپ نے یہ سوچ کر کہ پہلی ملاقات میں جذبات کی وجہ سے آپ کوئی بات نہیں کرسکتے، دوبارہ ملاقات کی درخواست کی۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آپ روز مجھ سے ملنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ دوسرے روز آپ پھر حاضر ہوئے تو وہی معاملہ پیش آیا اور آپ حضورؒ سے کوئی بات نہ کرسکے۔ پھر آپ کو اندازہ ہوا کہ شاید اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ آپ دوسروں کی شکایات حضورؒ کے سامنے رکھیں۔ چنانچہ آپ نے اس خیال کو ہی دل سے نکال دیا۔ البتہ دوسری ملاقات کے دوران حضورؒ نے فرمایا کہ میری ملاقات کے بعد مرزا طاہر احمد کے پاس جانا۔ چنانچہ آپ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کے پاس گئے اور اُن سے باتیں کرنا اتنا آسان لگا کہ آپ روزانہ اُن کے پاس جانے لگے۔ جب شوریٰ کے اراکین کا حضورؒ کے ساتھ کھانا تھا تو آپ کو حضورؒ اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کے درمیان والی نشست پر بٹھایا گیا۔ وہاں بھی جب حضورؒ آپ سے کچھ بات کرتے تو آپ کے منہ سے الفاظ نہ نکلتے لیکن جب آپ کا رُخ دوسری طرف ہوتا تو معاملہ دوسرا ہوتا۔ اس پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی آپ سے فرمایا کہ یہ عجیب بات ہے کہ تم روز صبح حضورؒ کے پاس جاتے ہواور کچھ نہیں کہتے لیکن جب میرے دفتر آتے ہو تو میں تمہیں بولے جانے سے روک نہیں پاتا!
ربوہ میں اپنے 32روزہ قیام کے دوران آپ روزانہ فجر، مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد مبارک میں اداکرتے تاکہ حضورؒ کی تلاوت سے لطف اندوز ہوسکیں اور ظہر و عصر ربوہ کی دیگر مساجد میں جاکر پڑھتے۔ ربوہ سے روانہ ہونے سے پہلے آپ آخری بار حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؒ نے فرمایا کہ امریکہ کی جماعت نے مجھے اُن کے جلسہ کی تاریخ بتانے کو کہا ہے، یہ بات اُنہیں مجھ سے پوچھنے کی بجائے خود طے کرنی چاہئے۔ … جب بھی مَیں افریقہ یا انڈونیشیا جیسی جماعتوں کو کچھ کہتا ہوں وہ اُسی وقت لبیک کہتے ہیں اور وہی کرتے ہیں۔ امریکہ پہنچ کر آپ نے حضورؒ کا پیغام عہدیداروں تک پہنچادیا۔
مکرم منیر حامد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزاطاہر احمد صاحبؒ کے بارہ میں جب مجھے معلوم بھی نہیں تھا کہ وہ خلافت کے مقام پر فائز ہوں گے تو بھی مجھے احساس تھا کہ حضورؒ کی شخصیت اتنی طاقتور ہے کہ روحانیت آپؒ کے چہرے سے نمایاں تھی۔ آپؒ کی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت کا انداز قابل تقلید تھا۔ حضورؒ جب بھی کچھ فرماتے تو آپؒ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے اور حکم بجالاتے۔ دوسروں کے لئے آپؒ ایک بھائی کی طرح تھے اور آپؒ سے بات کرنا بہت آ سان تھا۔ آپؒ میں لطیف مزاح بھی خوب پایا جاتا تھا۔ آپؒ کے ایک بار دریافت کرنے پر مَیں نے عرض کیا کہ خلیفہ وقت تو شہد کی مکھیوں کی ملکہ کی طرح ہیں جو اپنے اہلکاروں کے ساتھ مل کر شہد کی تیاری میں لگے رہتے ہیں اور پھر تمام دنیا اس شہد کے فوائد حاصل کرتی ہے۔ جب مَیں واپس امریکہ پہنچا تو آپؒ نے مجھے دو خطوط لکھے۔ ایک میں تو میری مذکورہ بات کو بیان کیا اور دوسرا ربوہ میں گزارے ہوئے وقت کی اہمیت کے متعلق تھا۔ پھر جلد ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ وفات پاگئے اور آپ خلیفۃالمسیح منتخب ہوئے۔
مکرم منیر حامد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو خلیفہ بننے کے بعد پہلی بار سپین میں ملا تو آپؒ کی شخصیت تو پہلے ہی کی طرح زندہ دل تھی البتہ اس فرق کے ساتھ کہ چہرہ نہایت روشن تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ خلیفہ صرف ہمارا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا روحانی سربراہ ہے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ امریکہ دورہ پر گئے تو مکرم منیر حامد صاحب کو حضورؒ کی تقریر سمجھنے کے لئے انگریزی دانوں کے لئے لگائے گئے خیمہ میں بیٹھنے کو کہا گیا۔ لیکن آپ نے فیصلہ کیا کہ ترجمہ تو بعد میں بھی سنا جاسکتا ہے۔ اور پھر آپ نے حضورؒ کی اردو تقریر کے دوران حضورؒ کے قریب بیٹھنے کو ترجیح دی۔
آپ کہتے ہیں کہ خلیفہ کا کوئی عہدہ نہیں ہوتا بلکہ خلیفہ تو اللہ تعالیٰ کا ایسا منتخب بندہ ہے جو تمام انسانوں کی بہتری کے لئے اس مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اگر میرا خلافت سے تعلق نہ ہوتا تو مَیں گزشتہ نصف صدی سے احمدی نہ ہوتا۔ ایسا تعلق نہ تو پوپ سے ہوسکتا تھا اور نہ دلائی لامہ سے۔ حدیث میں ایک شخص کا واقعہ آیا ہے کہ اُس نے اپنی عبادات میں کمزوری کا اظہار کرکے عرض کیا کہ وہ ڈرتا ہے کہ جنت میں آنحضورﷺ کا ساتھ اُسے نصیب ہوگا یا نہیں۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تم کس سے محبت کرتے ہو؟ اُس نے جواب دیا: اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ۔ تو آنحضورﷺ فرمانے لگے کہ تم اُنہی کے ساتھ ہوگے جن سے تم محبت کرتے ہو۔
اسی لئے ہمیں بھی رسول پاکﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کرام سے محبت کرنی چاہئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں