مکرم میاں عبدالسمیع نون صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28اپریل 2011ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں مکرم میاں عبدالسمیع نون صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

محترم میاں عبدالسمیع نون صاحب تعلیم الاسلام کالج کے اوّلین طلباء میں شامل تھے۔ میرا ایک تعلق اُن سے اس ناطہ سے تھا کہ مَیں وہاں استاد بھی تھا۔ پھر میرے دادا خسر حضرت مولانا محمد اسماعیل ہلالپوری اور میاں عبدالسمیع نون کے والد گرامی میاں عبدالعزیز نون میں خوب دوستی تھی۔ جب مولانا محمد اسماعیل ہلالپوری لاہور میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو احمدیت قبول کرلی۔ اُن کے خاندان والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے انہیں ہلالپور بلایا اور دھکے دے کر گھر سے نکال دیا بلکہ کپڑے بھی اتار لئے، جوتے چھین لئے اور کہا اب اس خاندان سے یا گاؤں سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ حضرت مولانا ہلالپوری اللہ پر توکّل کرکے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اپنے دوست میاں عبدالعزیز کی طرف بھی رُخ نہیں کیا کہ اللہ کی راہ میں تکلیف دیا گیا ہوں اور دوسرے کی طرف مدد کے لئے کیوں دیکھوں۔ مگر میاں عبدالعزیز نون کو اس حادثہ کی بھنک پڑی تو اپنے سوار دوڑائے جو نون صاحب کو میاں صاحب کے پاس لے آئے۔ میاں صاحب نے کچھ دن اپنے پاس رکھ کر خاطرداری کی اور پھر انہیں مناسب زادِ راہ اور کپڑے دے کر قادیان پہنچا دیا۔ یہ تعلق پھر عمر بھر قائم رہا۔
میاں عبدالعزیز نون خاصے بڑے زمیندار تھے مگر اپنی فاقہ مستی میں مگن تھے۔ وہ تو میاں عبدالسمیع نون نے وکالت کے بعد سرگودھا میں بہت ناموری کمائی، اپنی آبائی زمین کو درست کیا، سرگودھا میں جائیداد بنائی۔ آپ بہت اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ اشعار بہت یاد تھے جن کا برمحل استعمال کرتے۔
جرمنی میں تعلیم الاسلام کالج اولڈ بوائز نے انہیں اور مجھے اپنی ایک تقریب میں اکٹھا کردیا۔ میاں صاحب نے ترکی ٹوپی پہن رکھی تھی اورصدارت کی کرسی پر براجمان تھے۔ اجلاس شروع ہوا تو انہوں نے ایک نئی روایت قائم کی اٹھ کر اپنا خطبۂ صدارت پڑھ ڈالا اور فرمایا: خدا معلوم محفل کے آخر تک میرا خطبہ سننے کو کوئی بیٹھا بھی رہے گا یا نہیں؟ گویا میاں صاحب روایت شکن آدمی تھے۔ سرگودھا بار میں کئی روایتیں آپ نے بنائیں، کئی توڑیں۔ ایک روایت تو غریب مؤکّلوں کے مفت کیس لڑنے کی تھی۔ دوسرے وکلاء جزبز ہوتے تھے کہ میاں صاحب تو زمیندارآدمی ہیں ہمارا رزق کیوں گنواتے ہیں۔ مؤکّل ہر پھر کرا نہی کے پاس آتے تھے۔
میاں عبدالسمیع نون صاحب کی سب سے بڑی خصوصیت خاندانِ مسیح موعودؑ سے بے لوث محبت تھی۔ پنڈی یا جہلم کے سفر میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سرگودھا یا ان کے علاقہ بھلوال سے گزرتے تو حتی الوسع حضور کی اردل میں رہتے۔ مہمانداری کا شرف کئی بار حاصل کیا۔ اگرچہ حضورؒ ان سے بے تکلفی کی حد تک کھل کر بات کرتے تھے مگر آپ کبھی بے تکلفی کے مرتکب نہ ہوئے۔ ہمیشہ حضورؒ کے مرتبہ کا لحاظ رکھا اور انہیں اپنا استاد ہی نہیں مرشد سمجھ کر بات کی۔ ربوہ بھی آتے تو پہلے حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے پھر کسی اور طرف رُخ کرتے۔
موصی تھے۔ ربوہ میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں