مکرم نذیر احمد جنجوعہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جولائی 2010ء میں ہومیو ڈاکٹر مکرم مقبول احمد صدیقی صاحب کا اپنے خالو مکرم نذیر احمد جنجوعہ صاحب کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم نذیر احمد صاحب جنجوعہ آف سیالکوٹ اپنی ساری فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو چکے تھے۔ تاہم 18مارچ 2010ء کو وہ اپنے آبائی وطن کو دیکھنے واپس آئے تو اگلے ہی روز حرکت قلب بند ہوجانے سے اُن کی وفات ہوگئی۔ وفات سے چند دن قبل آپ نے اپنے بچوں سے کہا کہ مَیں سیالکوٹ جارہا ہوں اور اب واپس نہ آؤں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
محترم جنجوعہ صاحب یکم جنوری 1936ء کو جموں کشمیر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ میں آباد ہوئے۔ آپ نے مختلف قسم کے کئی چھوٹے کاروبار کئے اور آہستہ آہستہ ایک بڑے کامیاب کاروباری بن کر ابھرے۔ دنیاوی مصروفیات کے باوجود آپ کا جماعت سے بے حدا خلاص اور محبت کا تعلق تھا۔ احمدیہ مسجد بیت الحمد پورن نگر کے عین سامنے آپ کا گھر تھا۔ تمام نمازیں باجماعت ادا کرتے تھے اور بچوں کو بھی اس کی سختی سے تلقین کرتے تھے۔ جو بھی آپ کے ساتھ رہتا اسے آپ کی نمازوں اور عبادات سے رغبت کی جھلک نظر آ جاتی۔ بچوں کی بہت اعلیٰ تربیت کی۔ آپ کے ایک بیٹے مسلسل 18 سال تک اپنے حلقہ کے صدر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ 2006ء میں آپ نے اپنی بیوی اور ایک دوسرے بیٹے کے ہمراہ حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ نماز جمعہ کا بھی خاص اہتمام کرتے اور اُس روز سفر کرنا بھی پسند نہ کرتے۔ خلفاء احمدیت سے بہت محبت تھی۔ ربوہ کے جلسہ سالانہ میں بڑے اہتمام سے شریک ہوتے رہے۔ 1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قادیان تشریف لے گئے تو آپ بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں جلسہ میں شامل ہوئے۔
محترم جنجوعہ صاحب اللہ کی راہ میں بہت خرچ کرنے والے وجودتھے۔ اکثر سیکرٹری مال سے دریافت کرتے کہ چندہ کا سب سے زیادہ وعدہ کس کا ہے اور پھر اپنا وعدہ اس سے زیادہ لکھواتے۔ سیالکوٹ میں کبوتراں والی، پورن نگر اور کینٹ کی مساجد کی تزئین و آرائش اور دیگر اخراجات کے لئے آپ نے خطیر رقوم دیں۔ سیالکوٹ کے احمدیہ قبرستان کے لئے بھی خطیر رقم عطیہ کی۔ کئی بیوگان اور بعض رشتہ داروں کی باقاعدگی سے مالی امداد کیا کرتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں