مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9مارچ 2011ء میں مکرم خالد منیر صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی مکرم ڈاکٹر طارق بشیر صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو 28 مئی 2010ء کو دارالذکر لاہور میں شہید کردیئے گئے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارا ا ٓبائی گاؤں جبال ضلع نارووال میں واقع ہے۔ جبکہ والدہ صاحبہ کا تعلق ضلع ہوشیارپور سے ہے۔ خاندان میں سب سے پہلے احمدیت والد محترم چودھری یوسف خان صاحب نے قریباً 1930ء میں قبول کی۔ اسی سال آپ نے لاہورسے وکالت پاس کر کے ضلع گورداسپور میں وکالت شروع کی تھی۔
ہمارے نانا خان بہادرچوہدری نعمت خان صاحب سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج 1916ء میں احمدی ہوئے۔ آپ کو قرآن کریم سے عشق تھا اور آپ نے دورانِ ملازمت ہی حفظِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب امراء جماعت کا نظام جاری فرمایا تو ابتدا میں آٹھ بزرگان کو منتخب فرمایا جن میں خان بہادر صاحب بھی شامل تھے۔ آپ کا ذکرتاریخ احمدیت میں متعدد جگہوں پر ملتا ہے۔ حضورؓ نے آپ کو 33سال (1929ء سے 1962ء تک) جلسہ سالانہ قادیان اور ربوہ کے کسی ایک اجلاس کی صدارت کے لئے منتخب فرمایا۔ آپ کی بیٹی محترمہ نذیر بیگم صاحبہ کا رشتہ حضورؓ نے ہی ہمارے والد صاحب کے لئے مانگا تھا اور بَری حضرت امّ طاہرؓ کی زیرنگرانی تیار ہوئی تھی۔ محترم والد صاحب کو بھی حضورؓ کی بہت قربت حاصل تھی۔ بطور وکیل آپ کو جماعت کی خاص خدمت کی توفیق بھی عطا ہوتی رہی۔ کشمیر کمیٹی میں بھی اہم خدمت کی توفیق پائی۔
ڈاکٹر طارق بشیر کی پیدائش کراچی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کراچی اور سیالکوٹ سے حاصل کی۔ آپ ایک ذہین، صلح جُو اور پیار کرنے والے سچے بچے تھے اور ہر ایک کو عزیز تھے۔ جب مالی مشکلات کی وجہ سے سیالکوٹ سے ہمیں اپنے گاؤں منتقل ہونا پڑا تو میری والدہ آپ کے سکول سرٹیفکیٹ لینے گئیں۔ سکول کی پرنسپل نے اصرار کیاکہ آپ اس بچے کو ہمارے سکول سے نہ لے کر جائیں۔ ہم اس کی فیس معاف کرنے کے علاوہ باقی اخراجات بھی دیں گے۔
گاؤں کے سکول سے آپ نے سکالرشپ حاصل کرنا شروع کیا اور ہمیشہ کرتے چلے گئے۔ کالج اور میڈیکل کی تعلیم فیصل آباد سے حاصل کی۔ 1979ء میں ڈاکٹر بنے اور فیصل آباد اور ضلع نارووال میں متعین رہے۔
ڈاکٹر طارق صاحب کی شادی اکتوبر 1984 ء میں ایک نہایت مخلص احمدی خاندان میں، مکرم محمد افضل صاحب کی صاحبزادی مکرمہ بشریٰ افضل صاحبہ سے ہوئی۔آپ کو اللہ نے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں عطا کیں۔ سب بچوں کی تعلیم و تربیت بہت عمدہ کی۔
ڈاکٹر طارق اخلاص، نرم گوئی، خاموشی، سچائی اور پیار کا ایک مجسم وجود تھے۔ نہایت ذمہ دار شخص تھے۔ خدا تعالیٰ کے اِذن سے شہادت کے بعد کئی لوگوں کی خواب میں آکر بتایا کہ مَیں بہت خوش ہوں۔
2005ء میں فوج سے ریٹائر ہوکر مَیں فیملی سمیت لاہور پہنچا تو کرایہ پر مکان ملنے تک ڈاکٹر طارق صاحب کے ہاں ہی قیام کیا۔ قریباً پانچ ہفتے کا یہ عرصہ یوں گزرا کہ سخت سردیوں کے دنوں میں آپ نے اپنے دونوں بیڈروم ہمارے لئے خالی کردیئے۔ اور خود اپنی فیملی کے ہمراہ سٹور میں چارپائیاں بچھاکر اور ڈرائنگ روم کے صوفوں پر سوکر گزارا کرتے رہے۔
آپ میں صبر و تحمل کا بہت مادہ تھا۔ لیکن غیرت بھی بہت زیادہ تھی۔ جونہی کوئی اعتراض وارد ہوتا تو فوراً علمی جواب دیتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا پورا سیٹ خریدا ہؤا تھا اور انتہائی مصروفیت کے باوجود مطالعہ کرتے تھے۔ خطبات سننے کے شیدائی تھے۔
آپ نے 1986ء میں لاہور سے دو سالہ DMRD کورس کیا جس کے بعد قصور میں تعیناتی ہوئی۔ وہاں اپنے قیام کے دوران اپنے تمام غریب رشتہ داروں اور عزیزوں کا مفت علاج کرتے رہے۔ قصور میں ہسپتال کی ملازمت کے علاوہ ڈاکٹر طارق نے اپنا الٹراساؤنڈ کلینک کھول رکھا تھا جس میں خدا تعالیٰ کے فضل نے ان کو کمال کی مہارت دے رکھی تھی۔ مریض دُور دُور سے آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرتے حالانکہ اردگرد اور بھی کلینک موجود تھے۔ غریبوں کا معائنہ وہ انتہائی کم قیمت میں بلکہ بعض اوقات مفت کر دیتے تھے۔ 2004ء میں جنرل ہسپتال لاہور میں تعینات ہوئے اور چار سال وہاں ملازمت کی۔ پھر میوہسپتال میں ایڈیشنل MS متعیّن ہوئے۔ آپ نے جہاں اپنے عزیزوں اور خصوصاً بچوں کے ساتھ شفقت پر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ وہاں غیروں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی یہ حال تھا کہ آپ کی شہادت پر قصور سے بھی بکثرت ڈاکٹر اپنی فیملیوں کے ساتھ تعزیت کے لئے لاہور تشریف لائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں