میری زندگی کا ایک عجیب واقعہ – قبولیت دعا

پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ کراچی اکتوبر2008ء میں مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب دعاؤں کی قبولیت کے ایک نشان کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ 1966ء میں مَیں نیشنل بنک آف پاکستان کی گجرات برانچ کا مینیجر تھا تو ہیڈآفس کے حکم پر کئی بار کشمیر کے شہر بھمبر گیا تاکہ وہاں برانچ کھولنے کا سروے کیا جائے۔ یہاں وہ قلعہ بھی ہے جسے فرقان فورس نے فتح کرکے اس پر پاکستانی جھنڈا لہرایا تھا۔ ایک بار یہ علاقہ دکھانے مَیں اپنی فیملی کو بھی ساتھ ہی اپنی کار میں لے گیا۔ واپسی شام کے وقت ہوئی۔ لیکن ابھی بھمبر سے کچھ ہی دُور گئے تھے کہ کار کی فین بیلٹ ٹوٹ گئی۔ نہ تو میں اہلیہ اور بچوں کو ساتھ لے کر بھمبر جا کر کوئی امداد لاسکتا تھا اور نہ اہلیہ اور بچوں کو چھوڑ کر اکیلا مدد کے لئے جاسکتا تھا۔ ہم گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہے اور اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر نہایت عاجزانہ دعائیں کرتے رہے کہ ہماری مدد کر۔ مگر کوئی بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ مدد کس طرح آئے گی۔
رات گہری ہونے لگی تو جانوروں کے بولنے کی آوازیں آنے لگیں۔ رات قریباً گیارہ بجے بھمبر کی طرف سے ایک روشنی آتی نظر آئی اور ہماری گاڑی سے کوئی دو تین سو گز کے فاصلے پر آکر رُک گئی۔ ہم سب اپنی گاڑی سے اُتر کر گاڑی کے پچھلی طرف کھڑے ہوگئے تاکہ آنے والی گاڑی کو پتہ چلے کہ ایک فیملی ہے۔ وہ گاڑی آتے آتے ہمارے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ ایک کیپٹن فوجی وردی میں گاڑی چلا رہا تھا اور اُس کا ڈرائیور ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اُن کے پوچھنے پر مَیں نے واقعہ بتایا اور درخواست کی کہ آگے کچھ فاصلے پر کوٹلہ ککرالی گاؤں ہیں ان میں کسی میں ہمیں پہنچا دیں۔ کیپٹن صاحب نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ ان کی گاڑی Tow کرلو۔ ڈرائیو نے ایک رسّی سے ہماری گاڑی کو اپنی جیپ کے پیچھے باندھ دیا اور آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ جب متذکرہ گاؤں میں پہنچے تو میں نے ایک گاؤں والے سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی ایسا آدمی ہے جو گجرات میں بینکوں میں جاتا ہے۔ اُس شخص نے ایک دروازہ پر دستک دی۔ وہ شخص نیند سے بیدار ہوا اور گھر کے باہر نکلا تو خوشی کے ساتھ مجھے گلے لگا لیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ 1966-1967ء میں ہم دونوں لاہور میں ایک ہی کالج میں زیرتعلیم رہے ہیں۔
میں نے اسے گاڑی کی خرابی کا واقعہ اور کیپٹن صاحب کی امداد کا قصہ سنایا اور اسے کہا کہ رات ہم اس کے پاس رہیں گے اور کل صبح سویرے کسی بس وغیرہ پر گجرات چلے جائیں گے۔ اس نے کہا کہ پچھلے گاؤں سے ایک بس 9بجے صبح چلتی ہے اور جگہ جگہ رُکتی ہوئی قریباً 12بجے گجرات پہنچتی ہے۔ میں نے کہا کہ میرے پاس تو بنک کی چابیاں ہیں اگر بینک 9 بجے نہ کھلا تو ہنگامہ ہوجائے گا۔ کیپٹن صاحب کو معلوم ہوا کہ میں بینک کا مینیجر ہوں اور میرا 9 بجے بنک کھولنا ضروری ہے تو انہوں نے کہا کہ مَیں اپنی کار یہاں پر چھوڑ دوں اور وہ مجھے جیپ میں گجرات چھوڑ کر پھر اپنی یونٹ میں چلے جائیں گے۔ چنانچہ ہم اُن کے ساتھ جیپ میں سوار ہوگئے۔
راستہ میں کیپٹن صاحب نے بتایا کہ بیس روز پہلے ہی میری تبدیلی کھاریاں سے بھمبر ہوئی ہے لیکن چند ضروری چیزیں کھاریاں سے لانی ہیں۔ دو دفعہ کمانڈنگ آفیسر سے کھاریاں جانے کی اجازت مانگی لیکن انہوں نے اجازت نہ دی تو آخر مَیں چپ ہوکر بیٹھ گیا۔ لیکن آج انہوں نے مجھے خود ہی بلا کر کہا کہ آپ راتوں رات کھاریاں جا کر اپنا کام کرلو اور صبح کی روشنی ہونے سے پہلے واپس پہنچ جانا۔ آفیسر نے یہ بھی کہا کہ اس علاقہ میں ڈاکو فوجیوں کو بھی لوٹ لیتے ہیں اس لئے اپنا اسلحہ ساتھ رکھنا۔ وہ بتانے لگے کہ پہلے میں نے آپ کی گاڑی سڑک پر کھڑی دیکھی تو میں نے کہا کہ لو مشکل وقت آگیا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ ان کو کوئی پرابلم ہوگئی ہے۔ اس لئے آہستہ آہستہ میں آپ کے پاس پہنچا۔ لیکن دراصل اللہ تعالیٰ نے مجھ سے آپ کی خدمت کرانا تھی اس لئے میرے آفیسر نے اس سے قبل مجھے کھاریاں جانے کی اجازت نہ دی اور بغیر میری درخواست کے مجھے بلا کر کھاریاں جانے کے لئے کہا۔
رات گئے ہم گجرات پہنچ گئے اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور ایک اضطراری دعا اور غیبی امداد کا معجزہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھایا آج بھی جب اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو حضرت مسیح موعودؑ کے لئے دعائیں کرتا ہوں جنہوں نے ہمیں دعاؤں کی اہمیت اور حقیقت سے روشناس کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں