میرے درد کی جودواکرے!!!

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں مکرم ڈاکٹر حفیظ بھٹی صاحب کے مضمون میں حضورؒ کی بے شمار حسین یادوں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ حضورؒ سے تفصیلی تعارف اپریل1979 ء میں ہوا جب خاکسار لیبیا سے پاکستان آیا ہوا تھا اور بعض ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے سخت مشکل میں تھا۔ میرے سسر مجھے آپؒ کے پاس دعا اور مشورہ کے لئے لے گئے۔ آپؒ نے میری پریشانیوں کو بڑے غور سے سنا اور بڑے مفید اور مناسب حال مشوروں سے نوازا۔ بہت زیادہ دعا کا بھی وعدہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضل اور آپؒ کی محبت بھری دعاؤں سے خاکسار ان مشکلات سے بکلّی نجات پاگیا اور آپؒ سے محبت اور تعلق کا ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم ہوگیا جو آخر دم تک اٹوٹ انگ رہا۔ الحمدللہ۔
ایک سفر کے دوران آپ لیبیا سے متعلق بڑی دلچسپی سے گفتگو فرماتے رہے۔ وہاں کے سیاسی حالات اور قذافی کی عوام میں مقبولیت وغیرہ۔ جب خاکسار نے بتایا کہ قذافی نے عام غریب آدمی کی فلاح وبہبود کے لئے بہت کام کئے ہیں اور غریب طبقہ اس سے بہت خوش ہے تو فرمایا کہ اگر خلقِ خدا اس شخص سے خوش ہے تو پھر یہ شخص کبھی تباہ نہیں ہوگا۔
جون 1979ء میں خاکسار کی شادی ہوئی۔ میری اہلیہ امۃالنصیر صاحبہ سے اُن کے والد اور بھائی کے توسط سے شادی سے پہلے بھی حضورؒ بڑی شفقت فرماتے تھے۔ چنانچہ ہمارے رخصتانہ کی تاریخ آپ نے خود مقرر فرمائی اور اپنی محبت بھری دعاؤں کے ساتھ تقریب کو رونق بخشی۔ شادی کے بعد خاکسار کی اہلیہ کو فوراً لیبیا کاویزہ نہ مل سکا اور تین چار ماہ ان کو پاکستان میں قیام کرنا پڑا۔ جن دنوں آپ ربوہ میں ہوتیں تو حضورؒ شام کے وقت اپنی بچیوں کے ساتھ سیر کیلئے احمد نگر جاتے وقت ان کو بھی ساتھ لے جاتے۔
1980 ء میں چھیری بیگم کے ہاں Still Birthہوئی جس کے بعد سے وہ شدید جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوگئی جس کی حضور اقدسؒ کو ہمیشہ فکر دامن گیررہتی تھی اور آپ نے ہومیوپیتھک علاج کرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی۔ اگست 1989ء میں ہم ہجرت کرکے لندن میں مقیم ہوگئے جہاں پر حضور انور نے بڑی ہی محبت اور توجہ سے چھیری بیگم کا علاج کیا۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ چھیری بیگم! تمہاری بیماری کا جن میری دواؤں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے مرے گا۔
فروری 1993 ء میں ہمیں کینیڈا کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ وہاں کی شدید سردی میں چھیری بیگم کو جوڑوں کے درد کا شدید حملہ ہوا جس کی وجہ سے چلنا پھرنا بالکل مفقود ہوگیا۔ چھڑی کے سہارے یہ محض چند قدم چل سکتی تھیں۔ جب ہم لندن واپس آئے تو چھیری بیگم کی یہ حالت دیکھ کر حضورؒ کو سخت رنج ہوا۔ آپؒ نے دوبارہ علاج شروع کیا اور یہ ہدایت فرمائی کی روزانہ صبح دس بجے مجھے فون پر رپورٹ دیا کرو اور اس کے مطابق آپؒ دوائی تجویز فرماتے تھے۔ اگر کسی دن دس بج کر پانچ منٹ ہوجاتے تو حضور انور کا فون آجاتا کہ کیا بات ہے ابھی تک فون کیوں نہیں کیا۔
خاکسار نے ستمبر1993ء میںباقاعدہ کالج میں داخلہ لے کر ہومیو پیتھک کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ اس سے پہلے خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں اس بارہ میں عرض کیا تو آپؒ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں بھی تمہیں کچھ لیکچردوں گا۔ میں سمجھا کہ شاید آپؒ مجھے بلا کر ہومیو پیتھک کے بارہ میں کچھ سمجھائیں گے۔ لیکن اپریل1994ء میں جب آپؒ نےMTA پرہومیو پیتھک کے لیکچر دینے شروع کئے تو میں فوراً حضورؒ سے ملا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا میں نے تم کو ہومیوپیتھک کا کیسا سرپرائز دیا ہے۔ فرمایا کہ اگلے ہفتہ سے کلاس میں آنا شروع کردو۔ چنانچہ آپ نے نہ صرف مجھے ہومیوپیتھی سکھائی بلکہ اس قدر عزت بخشی کہ جس کا میں کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ہم میاں بیوی جب بھی آپؒ سے ملتے، آپؒ فرماتے: مَیں نے آپ کیلئے اپنا ایک سجدہ وقف کر رکھا ہے۔
1995میں یوکے جماعت نے جب مسجد فضل لندن کے احاطہ میں ایک Carvan میں ڈسپنسری قائم کی تو حضور انور نے خود ڈسپنسری کا معائنہ کیا اور اس کی فیض رسانی کے لئے دعا بھی کروائی۔ ہیومیوپیتھی ڈسپنسری کے قیام کے بعد ڈسپنسری میں گولیوں، شیشیوں، مدر ٹنکچر اور الکحل ڈائی لیوشن کی ضرورت پوری کرنا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ان اشیاء کا برطانیہ میں سستے داموں حاصل کرنا ناممکن تھا۔ کبھی پاکستان سے آنے والوں کے ہاتھ کچھ منگوایا جاتا اور کبھی غانا سے۔ لیکن ضروریات بہت زیادہ تھیں۔ جب پاکستان سے منگوائی گئی ڈائی لیوشن(الکحل) کی نصف لٹر کی چند بوتلیں ختم ہوگئیں اور وہاں سے مزید بھیجنا مشکل ہوگیا تو خاکسار نے لوکل فارمیسی سے ایک لٹر ڈائی لیوشن کی ایک بوتل خرید لی جس کی قیمت 80پاؤنڈ تھی۔ اس پر مکرم آفتاب احمد خانصاحب امیر یوکے فرمانے لگے کہ حضورؒ سے بھی اجازت لے لیں، کہیں بعد میں ناراض نہ ہوں۔ جب ہم نے حضورؒ کی خدمت میں بوتل پیش کی تو فرمایا: کتنے کی آئی؟ دس پاؤنڈ کی!۔ جب ہم نے قیمت بتائی تو فرمایا: استغفراللہ! ا تنی مہنگی!! … واپس کردو۔ پھر آپؒ نے اپنی ڈسپنسری سے نصف لٹر ڈائی لیوشن کی ایک بوتل منگواکر ہمیں دی اور فرمایا: اس سے کام چلاؤ۔ اللہ فضل فرمائے گا اور کوئی بندوبست ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو اس قدر برکت دی کہ چند دن بعد جرمنی کے ایک دوست نے اس قدر ڈائی لیوشن کا بندوبست کردیا کہ آج تک کبھی کمی نہیں ہوئی اور خدا کی قدرت کہ دس پاؤنڈ فی لٹر کے حساب سے ہی ملا۔ اسی طرح گولیوں اور شیشیوں کے بھی اللہ تعالیٰ نے انبار لگادئیے۔
آپ نے پاکستان سے گولیاں اور شیشیاں بنانے کی مشینیں بھی منگوادیں۔ حضور کو نئی نئی دوائیں ایجاد کرنے اور اُن پر تجربوں کا بہت شوق تھا۔ دواؤں کو اونچی طاقت میں ہاتھ سے پوٹینٹائیز کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ اسی سلسلہ میں جلسہ سالانہ کے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ ان دنوں میاں بیوی کے دوائیں بنا بنا کے جب ہاتھوں اور کہنیوں میں دردیں شروع ہوجاتی ہیں تو پھر دوا کیلئے میرے ہی پاس آتے ہیں۔
1996ء میں حضور انورؒ نے اپنے لیکچر کو کتابی شکل میں ترتیب دینے کا کام شروع کیا اور خاکسار کو فرمایا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ جب کتاب لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو اُن کے پاس سستی دواؤں کی ایک Kitبھی ہو جس میں کم از کم 100دوائیں ہوں تاکہ اُن کو اپنا علاج کرنے میں آسانی رہے اور ساتھ ہی حضورؒ کی یہ خواہش بھی تھی کہ یہ Kit بہت کم قیمت پر تیار ہو۔ اللہ تعالیٰ یہ کام حضورؒ کی منشاء کے مطابق خود ہی مکمل فرماتا چلا گیا اور بعض مخلصین کی مدد سے 117ادویات کا ڈبّہ تیار ہوگیا۔ دوسرے مرحلہ پر جماعتوں میں ڈسپنسریاں قائم کرنے کا کام شروع کیا گیا جس کے لئے حضور نے 350دوائیوں کا انتخاب کیا۔
دوائیوں کی سلیکشن کے لئے حضور کے ساتھ لمبی لمبی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے دوائیوں کے انتخاب کے وقت اس کی پوٹینسی کو ملحوظ رکھا کہ کونسی دوا کس پوٹینسی میں زیادہ کار آمد ہے اور حضور کے انتخاب میں کمال کا تجربہ شامل تھا۔ آج دنیا میں جو 650 ڈسپنسریاں کام کررہی ہیں وہ حضورؒ کی انہیں منتخب کی ہوئی دواؤں سے چل رہی ہیں۔ خاکسار اور میری اہلیہ نے ایک لٹر کی دوائی کو 10ملی لٹر کی شیشیوں میں بھرنے میں مدد کی اور خاکسار کے تینوں بچے اِن پر Stickerلگانے میں مدد کرتے تھے۔ ہم نے ہر دوائی کی 100-100شیشیاں تیار کیں۔ گویا ساڑھے تین ہزار دوائیں بنائی گئیں جن کو تین سو ڈبوں میں پیک کیا گیا۔ بعد میں جماعت جرمنی نے حضورؒ کی خواہش کے مطابق 117 مائع دواؤں پر مشتمل ڈبّہ بھی تیار کردیا۔
اسی کام کے دوران خاکسار کو دل کی شکایت ہوگئی۔ حضورؒ اُن دنوں کینیڈا کے دورہ پر تھے۔ جب آپؒ واپس تشریف لائے تو خاکسار نے اپنے کام کی رپورٹ کے لئے ملاقات کی جس کے بعد فرمایا کہ اب آپ اپنی صحت کی رپورٹ دیں۔ خاکسار نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انجائنا تشخیص کیا ہے اور اینجوگرافی کے لئے Waiting listمیں نام ڈال دیا ہے شاید سال ڈیڑھ سال لگ جائے۔ فرمایا کہ اگر 6ماہ تک Crateagusمدر ٹنکچر صبح شام استعمال کریں تو انشاء اللہ آپ کی تکلیف خودبخود ٹھیک ہوجائے گی۔
یہ بھی ایک خدائی حکمت تھی کہ جب مجھ کو پہلی بار تکلیف ہوئی تو جس ہسپتال میں ایمبولنس والے مجھے لے کر گئے وہاں ڈاکٹر امۃالقدوس ایاز صاحبہ ڈیوٹی پر تھیں۔ حضورؒ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اُن کو بلاکر خاص ہدایت فرمائی کہ یہ اپنا بالکل خیال نہیں رکھتے یہ سب ان کو Exertion کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ نے ان کا خاص خیال رکھنا ہے کیونکہ انہوں نے جماعت کی بہت خدمت کی ہے۔ مکرمہ ڈاکٹر صاحبہ نے حضور کی اس بات کا بہت بھرم رکھا اور ذاتی کوشش سے میری اینجوگرافی کا 6ماہ میں انتظام کروادیا۔ الحمدللہ رزلٹ منفی تھا۔ انہوں نے اس خوش خبری کی حضورؒ کو بھی فوراًطلاع دی۔ چند دن بعد جب خاکسار حضورؒ سے ملاقات کیلئے گیا تو آپؒ نے فرمایا کہ مَیں آپ کی بیماری سے بہت پریشان تھا۔ مَیں جب بچوں کے چہرے دیکھتا تھا مجھے اُن پر ترس آتا تھا۔ الحمدللہ کہ یہ پریشانی دُور ہوئی۔ اب آپ کو اپنا لائف سٹائل بدلنا ہوگا۔
جب حضورؒ نے طبّی مشوروں سے متعلق خطوط کا کام بھی خاکسار کے سپرد فرمایا تو ہزاروں نسخے حضورؒ کی طرف سے احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت احباب و خواتین کو بھی بھجوائے جاتے تھے۔ انہی غیر از جماعت مریضوں میں امریکہ کی ایک لیڈی ڈاکٹر ارم ایاز بھی تھیں جن کا نچلا دھڑ ایک حادثہ میں مفلوج ہوگیا تو اپنی کسی احمدی دوست کی تحریک پرانہوں نے حضور انورؒ کی خدمت میں خط لکھا اور حضور کے مشورہ سے خاکسار نے اُن کا علاج شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اس قدر شفادی کہ انہوں نے مشہورِ زمانہ فلمسٹار Super man کو جو کہ ایک حادثہ میں اپنے نچلے دھڑ سے مفلوج ہوگیا تھا، خط لکھا کہ مَیں ایک ڈاکٹر ہوں اور مَیں جانتی ہوں کہ روایتی ادویات میں تمہارا کوئی علاج نہیں۔ تم اگر شفاء چاہتے ہو تو لندن میں مرزا طاہر احمد سے رجوع کرو ، ان کے ہاتھوں سے تمہیں شفاء ملے گی۔ لیکن بعد میں Super man جس کا اصل نام کرسٹو فرریو ہے، کا معذرت کاخط آیا اور اُس نے مشورہ کا شکریہ ادا کیا۔
حضورؒ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے سے خاکسار بہت کم بیماریوں سے متعلق حضور سے مشورہ طلب کرتا تھا بلکہ حضورؒ کے ارشاد فرمودہ نسخوں سے استفادہ کرتے ہوئے خطوط کے جواب ارسال کئے جاتے رہے۔ لیکن جب کبھی ضرورت پڑی حضور کی طرف سے کبھی انکار نہیں ہوا۔ ہمیشہ شفقت اور راہنمائی فرمائی ۔ آپکی وفات سے چند روز قبل خاکسار نے حضورؒکی خدمت میں ”SARS”سے متعلق لکھا اور نسخہ کے لئے راہنمائی کی درخواست کی۔ حضورؒ نے اسی دن اپنے مفید مشورہ سے نوازا اور متعلقہ نسخہ کی ہدایت دی۔
ایک بار ایک شادی شدہ جوڑا جرمنی سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ اُن کی شادی کو ایک سال ہوگیا تھا اور بچہ نہیں ہوا تھا۔ وہ حضورؒ کے پاس دعا اور دوا کے لئے آئے تو حضورؒ نے اُن کو خاکسار کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھجوایا کہ میرے نسخوں سے سوچ کر علاج کریں اور ایک سال کے اندر بیٹا ہونا چاہے۔ بعد میں خاکسار نے عرض کی کہ حضور! بیٹا تو آپ کی دعاؤں سے ہی ہوگا، دوا میں نے کردی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اعجازی طور پر حضور کی دعاؤں کی برکت سے ایک سال کے اندر اُن کو بیٹے سے نوازا۔
حضورؒ نے جس وقت ڈسپنسری کا کام اس عاجز کے سپرد کیا تو خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں اپنی کم علمی اور ناتجربہ کاری کے بارہ میں عرض کرکے دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں میں شفا دے اور اس علم کو میرے لئے آسان کرے اور مجھے بہت زیادہ سمجھ عطا فرمائے۔ حضورؒ ہنس پڑے اور فرمایا: اس عمر میں سمجھ!!؟… بہت مشکل ہے…۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا: مَیں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھوں سے لوگوں کو بہت زیادہ شفا دے۔
اور مَیں آج قسم کھاکر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مَیں نے پچھلے کئی سالوں میں حضورؒ کی دعاؤں کا اس قدر اعجاز دیکھا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
میری اہلیہ کے نام حضورؒ نے جو مشفقانہ خطوط لکھے اُن میں سے ایک (محررہ 1979ء) میں تحریر فرمایا: ’’… حفیظ کا بہت خیال رکھنا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُس سے لڑنا نہ۔ مجھے وہ بہت عزیز ہے۔ خدا کرے تم اس کو اور وہ تمہیں بے حد خوش رکھے۔ اگر اُس کی بعض عادتیں بدلنی ہوں تو غصّہ سے نہیں بلکہ پیار سے بدلنا۔ مَیں انشاء اللہ تم دونوں کو دعا میں یاد رکھتا رہوں گا۔ تم بھی مجھے دعا میں یاد رکھنا۔ تم نیک اور خدا پرست لڑکی ہو۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق کو ہر دوسرے پر فضیلت دینا۔ سچی خوشی اور طمانیت قلب کا یہی راز ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ کوشش کے باوجود میری دوائیں تم پر کارگر نہ ہوئیں۔ لیکن دعائیں ہوسکتی ہیں۔ اسلئے مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تمہاری صحت اچھی ہوجائے گی‘‘۔
ایک اور خط (محررہ 24؍فروری 1982ء) میں تحریر فرمایا: ’’تمہاری تکلیف دہ لمبی بیماری میرے لئے بہت ہی درد آمیز ہے۔ افسوس کہ میری ہیومیوپیتھی تمہارے کسی کام نہیں آئی۔ لیکن یقین رکھتا ہوں کہ جہاں دوا کام نہ دے وہاں دعا جادو جگا سکتی ہے۔ لہٰذا اپنے بے حد کرم کرنے والے ربّ کی رحمت سے مایوس نہیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ ایلوپیتھی سے تمہیں آرام آئے یا حکمت اور طبابت سے بظاہر بے سبب آرام آجائے۔ میری دعا تو یہی ہے کہ

ابن مریم ہوا کرے کوئی
تیرے دُکھ کی دوا کرے کوئی‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں