میرے فرقہ کے لوگ علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبرواکتوبر2022ء)

راجہ برہان احمد صاحب

حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔
سو اے سُننے والو! اِن باتوں کو یاد رکھو۔ اور اِن پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409تا 410)

عرفان اور معرفت

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے علم اور معرفت کا فرق یوں بیان فرمایا ہے:
’’عرفان اور معرفت عربی کے لفظ ہیں جو قریبا ً قریباً علم کے مترادف ہیں، مگر علم اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ علم میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر کوشش اور تدبیر کے بھی حاصل ہو جاتا ہے مگر عرفان غور اور فکر سے حاصل ہوسکتا ہے اور گو علم کا لفظ عرفان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر عرفان کے معنوں میں یہ شرط پائی جاتی ہے کہ غور اور فکر کے بعد حاصل ہو۔ گویا ان میں عموم اور خصو ص کی نسبت ہے۔ علم عام ہے اور عرفان خاص۔‘‘
(عرفان ِ الٰہی۔ انوار العلوم جلد4صفحہ 343)

ہم ایسے مبارک وجود کس طرح بن سکتے ہیں؟

ایک طالب علم نے حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے آن لائن ملاقات کے دوران یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ ’’میرے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے اور اپنی سچائی، دلائل اور نشانات کے ذریعہ لوگوں کے منہ بند کر دیں گے۔‘‘ پیارے حضور! ہم ایسے مبارک وجود کس طرح بن سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایک طالب علم محنتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہے اور ایک دوسرا طالب علم ہے جواللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا، دونوں اپنے علم اور فہم و ادراک کو بڑھانے میں خوب محنت اور لگن سے کام کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اس کا اجر دے گا۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ایسا آدمی جو مذہبی آدمی ہے، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کے ماننے والوں کو علم اور معرفت میں خوب بڑھائے گا، پھر (اس کے حصول کے لیے) آپ کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی ہوگی کہ ہم دونوں اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کررہے ہیں لیکن میں تیرے پر ایمان رکھتا ہوں، اس لیے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ معرفت عطا فرما اور میری محنت کا بہترین نتیجہ عطا فرما۔ اس طرح آپ بہتر نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اگر آپ اللہ تعا لیٰ کے حضور دعاگو نہیں ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے جو حقوق اللہ کی صورت میں آ پ کو ادا کرنی چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کے احکات پر عمل پیرا نہیں ہیں تو پھر آپ کے لیے ان چیزوں کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ مت خیال کریں کہ یہ ایک منفی پوائنٹ ہے۔ یہ ایک مثبت پوائنٹ ہے کیونکہ آپ ان تمام اہداف کا حصول صرف اس دنیا میں نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ آخرت میں یہ سعی آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگی۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر آپ محنت کریں گے اور جو بھی فیلڈ آپ نے اپنے لیے چنی ہے اس میں بڑھنے کی بھرپور کوشش کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کامیاب ہوجائیں گے اور خوب ترقی کریں گے۔ لیکن اگر آپ بد دلی سے حقوق اللہ کی ادائیگی کریں گے تو پھر نتیجہ اتنا مثبت یا اچھا نہیں ہوگا جتنا آ پ چاہتے ہوں گے۔ اس لیے ایک سچے مومن کے طور پر آپ کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ آپ کو حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کی فیلڈ میں بھی خوب محنت کر نی ہوگی۔
(3؍اکتوبر 2021ء طلباء مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا سے آن لائن ملاقات)

علم و معرفت میں کمال حاصل کرنے والوں کے والدین

عام طور پر جب ہم جماعت احمدیہ میں علم و معرفت میں کمال حاصل کرنے والے افراد کا ذکر کرتے ہیں تو حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ اور محترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب نوبل انعام یافتہ کا ذکر کرتے ہیں۔لیکن یہاں کیونکہ ہم سب مجلس انصار اللہ کے ممبران ہیں اور ایک طرف جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنے علم و معرفت میں روز بہ روز ترقی کرتے چلے جائیں تو دوسری طرف ہماری دوہری ذمہ داری اپنی اولادکی اس طرح تعلیم و تربیت کرنا ہے کہ وہ بھی علم و معرفت کے کمالات حاصل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس لیے یہاں ان دونوں بزرگان کے والدین کے نمونے کاذکر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے

حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ نے ایک مختصر سی کتاب ’’میری والدہ‘‘ تحریر فرمائی ہے۔ اگر آپ نے وہ نہیں پڑھی تو ضرور پڑھیں تا آپ کو معلوم ہو کہ کس طرح کے والدین ہوتے ہیں جن کے ہاں’’محمد ظفر اللہ خان‘‘ جیسی اولاد پیدا ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ایک طویل واقعہ درج ہے کہ ایک عورت نے حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی والدہ سے اس بات سے ڈراتے ہوئے کچھ مال متاع دینے کے لیے کہااور ساتھ ہی یہ دھمکی دی کہ ورنہ تمہارا بیٹا مر جائے گا، مگر انہوں نے یہ جواب دیتے ہوئے کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اسے کچھ نہیں دیا اور کہا کہ ہاں تم غریب ہو اگر اس حوالے سے کچھ چاہیے تو ضرور دیتی ہوں۔اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے فوت ہوئے اور دونوں دفعہ اس عورت نے دھمکی دی۔ حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی والدہ کا ایمان بالکل متزلزل نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رہا کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ بعد ازاں حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی ولادت ہوئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے ان کی ماں کا نام روشن کیا۔
(ماخوذ از کتاب میری والدہ از سر محمد ظفر اللہ خان)

اپنا بیڑہ غرق کرانا چاہتے ہوتو چیک روکے رکھو

اسی طرح مکرم عبدالحمید چوہدری صاحب ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے بھائی اپنے والد صاحب کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ سن ساٹھ کی دہائی میں ایک ادارہ سے انہیں 42؍ہزارروپے لینے تھے لیکن دو افسران کی باہمی چپقلش کی وجہ سے اس رقم کے ملنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ آپ باقاعدگی سے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ اوراپنے والد محترم چودھری محمدحسین صاحب(والد محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب)کی خدمت میں دعا کے لیے عرض کیا کرتے تھے۔ ایک روز نماز فجر کے بعد آپ کے والد صاحب نے فرمایا: ’’اج تینوں اک آواز پئے گی تے تیرا کم ہو جائے گا‘‘ (یعنی آج تمہیں کوئی آواز آئے گی اور تمہارا کام ہوجائے گا)۔
مکرم عبدالحمید چودھری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس روز دفتر جاتے ہوئے راستہ میں میری نظر محترم عطااللہ بنگوی صاحب پر پڑی جو ٹیکسی کے منتظر تھے۔ مَیں نے اُنہیں اپنی کار میں بٹھا کر ان کے دفتر پہنچادیااور باتوں باتوں میں مذکورہ معاملہ کا ذکر کیا تو بنگوی صاحب نے کہا کہ وہ متعلقہ افسر سے بات کریں گے۔ مَیں نے خیال کیا کہ اتنے بڑے بڑے لوگوں کی بات نہیں مانی گئی تو سیدھے سادے بنگوی صاحب کی بات کہاں مانی جائے گی! لیکن اسی روز مجھے اطلاع ملی کہ میرا چیک تیار ہوگیا ہے۔ دراصل بنگوی صاحب نے اس افسر سے کہا تھا کہ جس کا تم نے چیک روکا ہے اس کے والد ولی اللہ ہیں۔اگر اپنا بیڑہ غرق کرانا چاہتے ہوتو چیک روکے رکھو،ورنہ فوراً ادائیگی کردو۔
(دعااوراحسان۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍نومبر 1996ء)

الٰہی میرا علم بڑھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی قرآن کریم کے علوم و معارف دیے گئے ہیں اور آپؑ کے ماننے والوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں انہیں علم و معرفت اور دلائل عطا کروں گا۔ تو اس کے لیے کوشش اور علم حاصل کرنے کا شوق او ر دعا کہ اے میرے اللہ! اے میرے رب! میرے علم کو بڑھا، بہت ضروری ہے۔ گھر بیٹھے یہ سب علوم و معارف نہیں مل جائیں گے۔ اور پھر اس کے لیے کوئی عمر کی شرط بھی نہیں ہے۔ تو سب سے پہلے تو قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کے لیے ، دینی علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو بے بہا خزانے مہیا فرمائے ہیں ان کو دیکھنا ہو گا۔ ان کی طرف رجوع کریں، ان کو پڑھیں کیونکہ آپؑ نے ہمیں ہماری سوچوں کے لیے راستے دکھا دیے ہیں۔ ان پر چل کرہم دینی علم میں اور قرآن کے علم میں ترقی کر سکتے ہیں اور پھر اسی قرآنی علم سے دنیاوی علم اور تحقیق کے بھی راستے کھل جاتے ہیں۔ اس لیے جماعت کے اندر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا شوق نوجوانوں میں بھی اپنی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہونا چاہیے۔ بلکہ جو تحقیق کرنے والے ہیں، بہت سارے طالب علم مختلف موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، وہ جب اپنے دنیاوی علم کو اس دینی علم اور قرآن کریم کے علم کے ساتھ ملائیں گے تو نئے راستے بھی متعین ہوں گے۔ ان کو مختلف نہج پر کام کرنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو اُن کے دنیادار پروفیسر ان کو شاید نہ سکھا سکیں۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عمر بڑی ہو گئی اب ہم علم حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھیں۔ اس بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھ جائیں کہ اب ہمیں کس طرح علم حاصل ہو سکتا ہے۔ اب ہم کس طرح اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے تو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا جو سکھائی گئی، جب یہ آیت اتری آپؐ کی عمر پچپن، چھپّن سال تھی۔ تو کہتے ہیں کہ یہ اس لیے ہے کہ مومنوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ ہمارے لیے بھی ہے۔ کسی بھی عمر میں علم حاصل کرنے سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بچپن سیکھنے کا زمانہ ہوتا ہے، جوانی عمل کا زمانہ ہوتا ہے اور بڑھاپا عقل کا زمانہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی رو سے ایک حقیقی مومن ان ساری چیزوں کو اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔ اس کا بڑھاپا اسے قوّتِ عمل، اور علم کی تحصیل سے محروم نہیں کرتا۔ اس کی جوانی اس کی سوچ کو ناکارہ نہیں کر دیتی بلکہ جس طرح بچپن میں جب وہ ذرا بھی بولنے کے قابل ہوتا ہے ہر بات کو سن کر اس پر فوراً جرح شروع کر دیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ فلاں بات کیوں ہے اور کس لیے ہے اور اس میں علم سیکھنے کی خواہش انتہا درجہ کی موجودہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا بڑھاپا بھی علوم سیکھنے میں لگا رہتا ہے اور وہ کبھی بھی اپنے آپ کو علم کی تحصیل سے مستغنی نہیں سمجھتا۔ اس کی موٹی مثال ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ذات میں ملتی ہے۔ آپؐ کو پچپن، چھپّن سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ الہاماً فرماتا ہے کہ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے ساتھ ہمارا سلوک ایسا ہی ہے جیسے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ ہوتاہے۔ اس لیے بڑی عمر میں جہاں دوسرے لوگ بیکار ہو جاتے ہیں اور زائد علوم اور معارف حاصل کرنے کی خواہش ان کے دلوں سے مٹ جاتی ہے اور ان کو یہ کہنے کی عادت ہو جاتی ہے کہ ایسا ہوا ہی کرتا ہے، تجھے ہماری ہدایت یہ ہے کہ ہمیشہ خداتعالیٰ سے دعا کرتا رہ کہ خدا یا میرا علم اور بڑھا، میرا علم اور بڑھا۔ پس مومن اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں بھی علم سیکھنے سے غافل نہیں ہوتا بلکہ اس میں وہ ایک لذّت اور سرور محسوس کرتا ہے۔ اس کے مقابل میں جب انسان پر ایسادَور آ جاتا ہے جب وہ سمجھتا ہے میں نے جوکچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے اگر میں کسی امر کے متعلق سوال کروں گا تو لوگ کہیں گے کیسا جاہل ہے اسے ابھی تک فلاں بات کا بھی پتہ نہیں تو وہ علم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عمر کے آدمی تھے مگرپھر بھی کہتے ہیں رَبِّ اَرِنِیۡ کَیۡفَ تُحۡیِ الۡمَوتٰی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ابراہیم! توُ تو پچاس ساٹھ سال کا ہو چکا ہے اور اب یہ بچوں کی سی باتیں چھوڑ دے۔ بلکہ اس نے بتایا کہ ارواح کس طرح زندہ ہوا کرتی ہیں۔ پس ہر عمر میں علم سیکھنے کی تڑپ اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ الٰہی میرا علم بڑھا۔ کیونکہ جب تک انسانی قلب میں علوم حاصل کرنے کی ہر وقت پیاس نہ ہو اس وقت تک وہ کبھی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ469-470)
(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ18؍جون 2004)

دین خدا کی آبرو تھی مقصدِ حیات

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کے بارے میں فرمایا
’’یہ پیشگوئی مختلف رنگ میں مختلف وجودوں کی شکل میں پوری ہوتی رہی مگر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو خصوصیت کے ساتھ ظاہری طورپر بھی اس کو پورا کرنے کا اس رنگ میں موقع ملا کہ آپ نے اپنی سچائی کے نور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے بسا اوقات سب کے منہ بند کردیے۔سیاست کے میدا ن میں بھی، وکالت کے میدان میں بھی اور تبلیغ کے میدان میں بھی ایسی عمدہ نمائندگی کی توفیق آپ کو عطا ہوئی کہ اپنے تو اپنے دشمن بھی بے ساختہ پکار اٹھے کہ اس بطل جلیل نے بلا شبہ غیروں کے منہ بند کردیے۔‘‘
ثاقب زیروی صاحب نے کیا خوب کہا تھا:

کیا شخص تھا کہ بانٹنے آیا تھا رنگ و نور
تاریکیوں کا نام جہاں سے مٹا گیا
دین خدا کی آبرو تھی مقصدِ حیات
پہنچا جہاں بھی پیار کا دریا بہا گیا

آپ اپنی ہمتوں کو بلند کریں

حضور ؒ نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ
’’یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ایک ظفرا للہ خاں ہمیں چھوڑ کر جارہا ہے تو آئندہ کے لیے ظفرا للہ خاں پیدا ہونے کے رستے بند ہوگئے۔ بکثرت اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے عظیم الشان غلاموں کی خوشخبریاں دی گئیں جو ہمیشہ آتے چلے جائیں گے … آپ اپنی ہمتوں کو بلند کریں، ان تقویٰ کی راہوں کو اختیار کریں جو چودھری صاحب اختیار کرتے رہے۔ … خداتعالیٰ کی رحمتیں بے شمار ہیں، وسیع ہیں اس لیے آپ … اولاد در اولاد کو یہ بتاتے چلے جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک نہیں، دو نہیں بکثرت ایسے غلام عطا فرمائے گا۔… جو عالمی شہرت حاصل کریں گے جو بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں کے منہ بند کردیں گے اور قومیں ان سے برکت پائیں گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ایسا بننے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین یارب العالمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں