نشہ آور اشیاء سے بچاؤ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم جنوری 2021ء)

مکرم ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا ایک مضمون رسالہ ’’انصارالدین‘‘ لندن مئی جون 2013ء میں شامل اشاعت ہے جس میں نشہ آور اشیاء سے بچاؤ اور علاج کے حوالے سے قابل قدر معلومات پیش کی گئی ہیں۔
ہمارا روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ کھانے پینے کی بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے استعمال سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ کسی کے کھانے کے بعد نیند آنے لگتی ہے۔ کسی کے کھانے کے بعد نیند اُڑ جاتی ہے۔ کسی کے استعمال کے بعد انسان کی سوچنے سمجھنے کی طاقت جاتی رہتی ہے۔ یہی نشہ کہلاتا ہے یعنی نشہ وہ چیز ہے جس سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہو اور اس چیز کے استعمال کے بغیر جینا مشکل ہو جائے۔
بعض چیزیں جنہیں ہم اپنی غذا کا حصہ سمجھتے ہیں جیسے چائے۔ لیکن ایک دن اگر چائے نہ ملے تو سر میں درد اور دیگر کیفیات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ یہی حالت سگریٹ پینے والوں کی ہوتی ہے کہ چند گھنٹے سگریٹ نہ ملے تو عجیب بے چینی کا سامنا ہوتا ہے، کسی کام میں دل نہیں لگتا اور توجہ قائم نہیں رہتی، لیکن سگریٹ کے دوکش لگاتے ہی زندگی معمول کے مطابق آجاتی ہے۔ شراب کے نشے میں مبتلا افراد بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں۔
نشہ آور تمام اشیاء میں ایسے کیمیائی مرکبات ہوتے ہیں جو مختلف طریق پر دماغ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ شراب میں ایتھائل الکوحل ہوتی ہے جو دماغ کے کام کو سست کردیتی ہے۔ اسی طرح کافی، چائے اور کولا مشروبات میں کیفین ہوتی ہے جو دماغ کے کام کو تیز کردیتی ہے جس سے نیند اُڑ جاتی ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور پیشاب بار بار آنے لگتا ہے۔ تمباکو میں نکوٹین ہوتی ہے جو دماغ اور حرام مغز کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہے۔ تمباکو کو جس طرح بھی استعمال کیا جائے یہ اپنا بداثر دکھاتا ہے۔ بہرحال یہ تمام مرکبات جسم کو اپنی عادت اس طرح سے ڈال دیتے ہیں کہ ان کو استعمال کرنے والوں کو کچھ عرصہ استعمال کے بعد ان کو چھوڑنے میں بڑی دقّت ہوتی ہے اور اسی کو نشہ کہتے ہیں۔
سائنسی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی دماغ پر اثر کرنے والے کیمیاوی مرکبات کی بہت سی اقسام ہیں۔ دماغ کے کام کو سست کرنے والے مرکبات میں سر فہرست شراب کی مختلف اقسام، افیم اور اس کے مرکبات اور سکون آور ادویات شامل ہیں۔ دماغ کے کام کو تیز کرنے والے مرکبات میں کیفین کے علاوہ کوکین اور سانس کی نالیوں کو کھولنے والی بعض ادویات شامل ہیں۔ اسی طرح دماغ کے احساسات پر اثر کرنے والے بعض مرکبات چرس اور بھنگ میں پائے جاتے ہیں جن کے استعمال کے بعد انسان کا ذہن مائوف ہوکر غیر معمولی احساسات کا تجربہ کرتا ہے جو بعض اوقات مستقل شکل اختیار کرکے دماغی بیماری کا روپ دھار لیتی ہے۔ تمباکو میں پائے جانے والے بعض مرکبات بھی اعصابی نظام پر تباہ کُن اثر ڈالتے ہیں۔ اس میں نکوٹین سر فہرست ہے جس کی وجہ سے تمباکو کے استعمال کرنے کی عادت اس طرح پڑتی ہے کہ اس کا چھوڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔
نشہ کی عادت کی بہترین روک تھام یہ ہے کہ اس کی عادت ہی پڑنے نہ دی جائے۔ مثلاً سگریٹ نوشی روکنے کے لیے بچپن کی عمر سے ہی یہ بات ہر ایک کو ذہن نشین ہونی چاہیے کہ یہ نشہ ہے اور صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی طرح شراب اور افیم وغیرہ کے متعلق بچوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ یہ نقصان پہنچانے والی چیزیں ہیں اور ان سے بچنا ہے۔ حکومت اور معاشرے کے علاوہ والدین، اساتذہ اور بزرگوں کو عمومی طور پر اس امر کی نگرانی کرنی چاہیے کہ اس قسم کی نشہ آور چیزیں معاشرہ میں دستیاب نہ ہوسکیں۔
بعض ممالک میں ایک خاص عمر سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ یا شراب بیچنا انتہائی سنگین جرم ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایک چیز جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے لوگوں کے لیے اتنی مضر ہے تو اس عمر کے بعد وہی چیز مضر کیوں نہیں ہے۔
نشے کی مختلف عادات چھڑانے کا علاج بھی مختلف ہے لیکن بعض اصول ہرنشے کی عادت کے دُور کرنے کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوا اور بُت اور تیروں سے قسمت آزمائی، یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہوجائو۔ (سورۃالمائدہ:91)
ایک اَور آیت میں یہ پُرحکمت ارشاد فرمایا:
وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ (بھی) ہے اور لوگوں کے لیے فوائد بھی اور دونوں کا گناہ (کا پہلو) ان کے فائدہ سے بڑھ کر ہے… (البقرہ: 220)
ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں شراب نوشی کی ممانعت نہیں تھی اور یہ لازمی امر ہے کہ کچھ لوگ اس کے عادی (alcoholics)بھی ہوں گے۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اس قوم میں شراب نوشی کے پانچ اوقات ہوا کرتے تھے۔ اسلام میں عبادت کا نظام قائم ہوا توانہی پانچ اوقات میں نمازیں پڑھی جانے لگیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ جو نشے کی حالت میں عبادت کے لیے آجاتے ہوں جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے:
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تم نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو۔ یہاں تک کہ اس قابل ہو جاؤ کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو… (سورۃالنساء:44)
یہ واقعہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ جب شراب کی حرمت کے احکامات نازل ہوئے تو اس کا اعلان مدینہ کے گلی کوچوں میں کیا گیااس وقت کسی مجلس میں شراب نوشی کی محفل سجی ہوئی تھی۔ جب پکارنے والے نے اعلان کیا تو پینے والوں نے شراب کے مٹکے توڑنے کے بعد ان نئے احکامات کی تصدیق کی اور بیان کیا جاتا ہے کہ اس دن مدینے کی گلیوں میں شراب بہتی رہی اور پھر صحابہ نے شراب سے ہمیشہ کے لیے تعلق توڑ لیا۔ یہ حیرت انگیز انقلاب ایک ایسی قوم میں دیکھنے میں آیا جس کی گھٹی میں شراب نوشی پڑی ہوئی تھی۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی نشہ آور چیزیں خاص طور پر افیم اور اس کے اجزاء دوائوں میں اور علاج میں استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک سنہری اصول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ کوئی بھی چیز جس کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں ایسی چیزوں سے بچنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نشہ چھوڑنے کے لیے پختہ ارادہ اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ میں یہ انسانی وصف ہمیں بدرجہ اتم نظر آتا ہے اور یہ وصف اللہ کی ذات پر پختہ ایمان، رسول اللہؐ کے پاکیزہ نمونے پر عمل کرنے کی شدید خواہش اور مستقل دعا اور عبادات سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ وصف آج بھی انہی اصولوں پر عمل کے نتیجے میں پیدا ہوسکتا ہے۔
تیسری ضروری بات یہ ہے کہ نشے میں مبتلا لوگوں کی مدد اور علاج کے لیے نشہ آور چیزوں اور ادویات کے حصول میں مشکلات ہونی چاہئیں اور ڈاکٹری نسخہ کے ذریعے سے ہی ملنی چاہئیں۔
ایک اہم بات صحبت ہے۔ عمومی طور پر ایک چیز کے عادی افراد ایک دوسرے کے ہمراہ رہ کر اپنی نشے کی عادت کوبرقراررکھتے ہیں۔ اس لیے نشہ ترک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت ترک کردی جائے جو اس نشے کے عادی ہیں اور ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے معالج یا ادارے کی مدد حاصل کرنا بھی مفید ہے جو کسی بھی خاص نشہ کی عادت چھڑانے میں مہارت رکھتا ہو۔
سب سے آخری لیکن بہت اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی بری عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کرنی چاہیے۔ کامیابی کا یہ گر ہمیں اس روایت سے ملتا ہے کہ حضرت منشی فیاض علی صاحب کپورتھلویؓ حقہ نوشی کے عادی تھے۔ جالندھر میں حضرت اقدسؑ نے وعظ فرماتے ہوئے حقّہ نوشی کی مذمت فرمائی۔ حضرت منشی صاحبؓ نے حضرت اقدسؑ سے عرض کی کہ حقّہ چھوڑنا مشکل ہے دعا فرمائی جائے تو چھوٹ جائے۔ حضوؑر نے فرمایا کہ آئو ابھی دعا کریں۔ چنانچہ دعا کروائی گئی۔ اس رات حضرت منشی صاحبؓ نے خواب میں دیکھا کہ ایک نہایت نفیس حقّہ آپ کے سامنے لایا گیا۔ آپؓ نے حقّے کی نَے اپنے منہ سے لگانی چاہی تو نَے سیاہ سانپ بن کر لہرانے لگی۔ اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپؓ نے سانپ کو مار دیا اور اس کے بعد حقّہ نوشی نہیں کی اور اس سے نفرت ہوگئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں