نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر13)

نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے (نمبر13)
(کاوش: فرخ سلطان محمود)

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف پہلوؤں سے اُن کی راہنمائی کا سلسلہ جاری فرمایا ہوا ہے۔ اس میں اجتماعات اور اجلاسات سے خطابات، پیغامات کے ذریعہ ہدایات، رسائل کا اجراء اور وقف نو کلاسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ مستقبل کے احمدی نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ اُس وقت بھی جاری رہتا ہے جب حضور انور کسی ملک کے دورہ پر تشریف لے جاتے ہیں۔ وہاں کے واقفین نو بھی یہ سعادت حاصل کرتے ہیں کہ براہ راست حضور انور کی رہنمائی سے فیض حاصل کرسکیں۔ ان واقفین نو کو کلاسوں کے دوران حضورانور جن نہایت اہم نصائح سے نوازتے ہیں اور جو زرّیں ہدایات ارشاد فرماتے ہیں وہ دراصل دنیا بھر میں پھیلے ہوئے واقفین نو کے لئے بیش بہا رہنمائی کے خزانے رکھتی ہیں۔ حضور انور کی واقفین نو کے ساتھ کلاسوں میں سے ایسے چند حصے آئندہ صفحات میں پیش کئے جارہے ہیں جنہیں واقفین نو کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
(مطبوعہ رسالہ اسماعیل جولائی تا ستمبر 2013ء)

جرمنی کے 18سال سے زائد عمر کے واقفین نو کی کلاس
(کلاس منعقدہ 21 جون 2010ء میں سے انتخاب)

مسجد بیت السبوح میں منعقد ہونے والی اس کلاس میں جرمنی بھر سے تقریباً 280 واقفین نو نے شمولیت کی سعادت حاصل کی۔ یہ وہ خوش نصیب واقفین نو، نوجوان تھے جو تجدید وقف کرچکے ہیں۔ اس کلاس کا موضوع ’’وقف زندگی‘‘ رکھا گیا تھا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔ بعد ازاں اس کا اردو زبان میں ترجمہ پیش کیا۔اس کے بعد یہ حدیث پیش کی گئی: حضرت سہل ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جائو، اللہ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو، لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔
بعد ازاں وقف زندگی کے حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا گیا: ’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہوں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذّت سے حظّ اٹھایا ہے یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کر نے کے لئے اگر مرکے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذّت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے۔
پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کر چکا ہوں اوراس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں بلکہ تکلیف اور دکھ ہو گا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا، اس لئے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو وصیت کروں اور یہ بات پہنچادوں۔ آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے۔ اگر کوئی نجات چاہتا ہے اور حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے تو وہ اللہ کے لئے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا، خدا میں ہو کر نہیں مرتا، وہ نئی زندگی پا نہیں سکتا۔ پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تم دیکھتے ہو کہ خدا کے لئے زندگی کا وقف میں اپنی زندگی کی اصل غرض سمجھتا ہوں۔ پھر تم اپنے اندر دیکھو کہ تم میں سے کتنے ہیں جو میرے اس فعل کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور خد ا کے لئے زندگی وقف کرنے کو عزیز رکھتے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد اوّل صفحہ370)
بعد ازاں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ منظوم کلام پیش کیا گیا:

موت اس کی رہ میں گر تمہیں منظور ہی نہیں
کہہ دو کہ عشق کا ہمیں مقدور ہی نہیں

اس کے بعد ’’وقف زندگی‘‘ کے عنوان پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے ارشادات پیش کئے گئے۔ یہ ارشادات ہمارے تمام مبلغین اور معلمین اور دیگر واقفین زندگی احباب اور واقفین نو بچوں اور واقفات نوبچیوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ہمارا اوڑھنا، بچھونا ، اٹھنا ، بیٹھنا، جاگنا سونا او رچلنا پھرنا انہی ارشادات اور ہدایات کے تابع ہونا چاہئے۔
اپنی زندگیاں اللہ کی راہ میں وقف کرنے سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کے بندے کون ہیں۔ یہ وہی ہیں جو اپنی زندگی کو جواللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کردیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ مگر جو لوگ دنیا کی املاک اور جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئے۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دنیا کے بلکہ وہ خالص دین کے بن گئے تھے اور اپنی جان ومال سب اسلام پرقربان کر چکے تھے۔ ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے مبلغین اور واعظین مقرر کئے جائیں۔ وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت ومال کا ان کو فکر نہ ہو ۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا۔ نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ گھر والوں کی افلاس کا عذر پیش کرتا تھا۔ یہ کام اس سے ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کے لئے وقف کر دے۔ متقی کو خداتعالیٰ آپ مدد دیتا ہے۔ وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی کو اپنے لئے گوارا کرتا ہے… خدا اس کو پیار کرتا ہے جو خالص دین کے واسطے ہو جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں۔ ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ پر پھرتے رہیں اور خدا کی بات پہنچائیں۔ صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں۔ ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو ۔ہر ایک سخت کلامی اور گالی کو سن کر نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں‘‘۔(بدر 3؍اکتوبر 1907ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی وقف کرنے کے تعلق میں فرمایا ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی رضاکے لئے، اس کی فرمانبرداری اور تعمیل حکم کے لئے جو اسلام کا سچا مفہوم اور منشاء ہے کوشش کرو… خداتعالیٰ کی راہ میں اپنے کل قویٰ اور خواہشوں کو قربان کر ڈالو اور رضائے الٰہی میں لگا دو… اس وقت خداتعالیٰ پھر ایک قوم کو معزز بنانا چاہتا ہے اور اس پر فضل کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بھی وہی شرط اور امتحان ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے لئے تھا۔ وہ کیا؟ سچی اطاعت اور پوری فرمانبرداری۔ اس کو اپنا شعار بنائو اور خداتعالیٰ کی رضا کو اپنی رضاپر مقدم کر لو۔ دین کو دنیا پر اپنے عمل اور چلن سے مقدم کر کے دکھائو۔ پھر خداتعالیٰ کی نصرتیں تمہارے ساتھ ہونگی۔… ہم سب ایک عظیم الشان وعدہ کر چکے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور جہاں تک طاقت اور سمجھ ہے گناہوں سے بچتے رہیں گے۔ اس وعدہ کو ایفاء کرنے کی پوری کوشش کرو اور پھر خداتعالیٰ ہی سے توفیق اور مدد چاہو کیونکہ وہ مانگنے والوں کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے‘‘۔(خطبات نور۔ صفحہ189)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’وقف زندگی‘‘ کے حوالہ سے فرماتے ہیں: ’’جہاں میں یہ کہتا ہوں کہ زندگیاں وقف کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ خوب سوچ سمجھ کر اس راہ میں قدم رکھو۔ کیونکہ یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ ہم اپنی زندگیوں سے دستبردار ہو گئے۔ بعض عزیزوں رشتہ داروں کی طرف سے مشکلات پیدا کی جائیں گی یا اپنا نفس ہی پیچھے ہٹنے کے لئے کہے گا۔ پس خوب سمجھ کر دعاؤں کے بعد اس راہ میں قدم رکھو۔ پھر یہ بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ جہاں اور جس جگہ چاہو بھیج دو ہمیں انکار نہیں ہو گا۔ اگر ایک منٹ کے نوٹس پر بھی ان کو بھیجا جائے گا تو ان کو جانا پڑے گا۔ اگرچہ یہ بہت بڑا کام اور بہت بڑا ارادہ ہے مگر اس کے انعامات بھی بہت بڑے ہیں۔ اگر کسی کو ایک ہزار روپیہ بھی آمدنی ہو گی تو اس کو چھوڑنا پڑے گا ۔ اور ایسی جگہ جانا ہوگا جہاں صرف دس روپے ملنے کی امید ہوگی۔ اور آباد علاقوں کو چھوڑ کر جنگلوں کے سفر پر جانا پڑے گا۔ شہروں کو چھوڑ کر گاؤں میں رہنا پڑے گا۔ خطرناک موسم ان کو اس ارادہ سے روک نہ سکیں۔ جنگیں ان کے لئے رکاوٹ کا موجب نہ ہوں۔ دشوارگزار راستہ ان کو بددل نہ کرے۔ بیوی بچوں کے تعلقات ان کے عزم کو ڈھیلا نہ کر سکیں۔ وہ چاہیں تو بیوی بچوں کو لے جائیں یا کہیں رکھیں مگریہ نہیں ہو گا کہ کہیں کہ ہم ان سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ پس جو ان تکالیف کو برداشت کریں گے خدا اُن کی مدد کرے گا اور ان کو بڑے بڑے انعامات کا وارث بنائے گا‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 27ستمبر1917ء)
مزید فرمایا: ’’زندگی کی علامت یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص اپنی جان لے کر آگے آئے اور کہے کہ اے امیر المومنین! یہ خدا اور اس کے رسول اور اس کے دین اور اس کے اسلام کے لئے حاضر ہے۔ جس دن سے تم یہ سمجھ لو گے کہ تمہاری زندگیاں تمہاری نہیں بلکہ اسلام کے لئے ہیں۔ جس دن سے تم نے محض دل میں ہی نہ سمجھ لیا بلکہ عملاً اس کے مطابق کام بھی شروع کر دیا اس دن تم کہہ سکو گے کہ تم زندہ جماعت ہو‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 11جنوری 1935ء)
حضورؓ فرماتے ہیں: ’’ہر واقف مجاہد ہے اور مجاہد پر اللہ تعالیٰ نے بہت ذمہ داریاں ڈالی ہیں۔ ان کو پورا کرنے والا ہی مجاہد کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے… ہمارا مقابلہ تو ان قوموں سے ہے جن کے نوجوانوں نے چالیس چالیس سال تک شادی نہیں کی اور اپنی زندگیاں لیبارٹریوں میں گزار دیں اور کام کرتے کرتے میز پر ہی مرگئے اور جاتے ہوئے بعض نہایت مفید ایجادیں اپنی قوم کو دے گئے… ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے کہ جہاں ان کو کھڑا کیا جائے وہ وہاں سے ایک قدم بھی نہ ہلیں، سوائے اس کے کہ ان کی لاش ایک فٹ ہماری طرف گرے تو گرے، لیکن زندہ انسان کا قدم ایک فٹ آگے پڑے، پیچھے نہ آئے۔ ہمیں تو ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو قوموں کی بنیادوں کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کفن بردوش ہے:

مِنْھُمَ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہ، وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِر

کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام کی راہ میں اپنی جانیں دے دی ہیں اور کچھ انتظار کر رہے ہیں ۔ یہ وقف ہے جو دنیا میں تغیر پیدا کیا کرتا ہے‘‘۔
وقف زندگی کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ لوگ، جو نوجوان یا بڑی عمر کے مرد یا عورتیں جو خداتعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں وہ اس معنی میں اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں

اِنَّ الْعِزَّۃَ لِلہِ جَمِیْعاً

دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی عزت پاسکتا ہے تو محض اپنے رب سے ہی پا سکتا ہے۔ اس لئے اگر ساری دنیا ان کی بے عزتی کے لئے کھڑی ہو جائے اور انہیں برابھلا کہے تو وہ سمجھتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور وہ عزت کی جگہوں کو خود تلاش نہیں کرتے، نہ عزت واحترام کے فقروں کو سننے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہو تی ہے بلکہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے رب کی نگاہ میں عزت حاصل کرلیں۔ اگر ان کا دل اللہ تعالیٰ کے بتانے پر یا اس کے سلوک کی وجہ سے یہ سمجھ لے کہ ہم خداتعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہیں تو وہ ان ساری عزتوں کو جو دنیوی ہیں ٹھکرا دیتے ہیں اور ان سے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ حقیقی خوشی انہیں حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح خداتعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اس لئے دنیا کے اموال کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی، نہ وہ اس بات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ انہیں دنیا کے رزق دئیے جائیں، نہ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گزاروں میں ایزادی کی جائے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔
پھر ایک واقف زندگی یہ یقین رکھتا ہے کہ حقیقی شافی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جس وقت وہ یا اس کا کوئی عزیز جس کے اخراجات کا بار اس پر ہے بیمار ہو جاتا ہے تو اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ نظام سلسلہ یا اس کے اپنے وسائل مہنگی دوا کے متحمل نہیں ہو سکتے بلکہ وہ جانتا ہے کہ شفا دینا خداتعالیٰ کا کام ہے ۔ جب وہ شفا دینے پر آتا ہے وہ مٹی کی چٹکی میں شفا رکھ دیتا ہے۔
غرض ایک واقف زندگی خداتعالیٰ کی صفات پر یقین رکھتے ہوئے حقیقی توکل اپنے رب پر کرنے والا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کے سوا کسی حالت میں اور کسی ضرورت کے وقت وہ کسی اور کی طرف نہیں جھکتا‘‘۔(الفضل 25؍اپریل 1967ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے واقف زندگی بچوں کی تیاری کے سلسلہ میں ہدایات دیتے ہوئے والدین سے فرمایا:
’’وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وقف کا معاملہ بہت اہم معاملہ ہے ۔ واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جائو۔ ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے۔ اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے۔ تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے، پھر تم واپس نہیں جا سکتے۔ اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو، پھر تم آگے آئو ورنہ تم الٹے قدموں واپس مڑ جائو۔ تو اس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں۔ وقف وہی ہے جس پر آدمی وفا کے ساتھ تا دم آخر قائم رہتا ہے۔ ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتا ہے۔ واپس نہیں مڑا کرتا۔ ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے ان ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر ان پر ان کو کامل دسترس ہو‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 1989ء)
بعد ازاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے وقف زندگی کے بارہ میں ارشادات پیش کئے گئے۔ حضورانور نے واقفین نو بچوں کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’آپ لوگوں نے وقف کیا ہوا ہے۔ وقف کا مطلب ہے کہ اب میں آ گیا ہوں، اب جہاں چاہیں لگا دیں۔ کیا تو میں نے ماسٹرز ہے، چاہے تو مجھے چپڑاسی لگادیں یا کچھ اور لگا دیں یا جس کام میں بھی جماعت لے لے۔ یہ روح پیدا کرنی پڑے گی۔ یہ نہیں ہو گا کہ پی ایچ ڈی کرلی ہے، اجازت دیں کہ ہم دنیاداری کی نوکری کرتے رہیں۔ واقفین جماعت کو اب ہر فیلڈ میں چاہئیں۔ آئندہ جو وقت آ رہا ہے ہو سکتا ہے ریسرچ کا کوئی ادارہ جماعت کا اپنا ہوجائے۔ ٹیچنگ کے لئے بہت سارے چاہئیں۔ قانون میں چاہئیں۔ اکاؤنٹس میں چاہئیں، بزنس کے ماہرین چاہئیں اور اسی طرح مربیان چاہئیں۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا‘‘۔
پھر حضور انور نے فرمایا: ’’واقف زندگی وہ ہے جو کسی قسم کا بھی مطالبہ نہیں کرتا، جس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی۔ جو الاؤنس کھانے کے لئے ملے گا اس میں گزارا کرنا ہوگا۔ جس جگہ آپ کو رہنے کے لئے کہا جائے گا جنگل میں اسی جگہ رہنا ہو گا … اس سوچ کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کریں کہ ان علاقوں میں آپ لوگوں نے کام کرنا ہے۔ انجینئر کی حیثیت سے، ٹیچر کی حیثیت سے، مبلغ کی حیثیت سے یا کسی بھی اور فیلڈ میں اگر ضرورت پڑے گی بھیجا جا سکتا ہے… تو ا س لحاظ سے آپ لوگوں کو جو میچور ہو چکے ہیں اور جو پندرہ سال سے اوپر ہیں وہ اس لحاظ سے ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کریں کہ آپ نے اپنے آپ کو جماعت کے لئے پیش کردینا ہے اپنی تعلیم مکمل کر دینے کے بعد ۔ اور یہی وقف کا مقصد ہے اور اس کے لئے واقفین نو کوتھوڑا سا دوسروں سے مختلف بھی ہونا چاہئے۔ وقف نو آپ اس وقت کہلائیں گے جب جماعت کی خدمت میں آ جائیں گے۔ اگر ایک انجینئر بنتا ہے اور اس کو باہرمثلاً تیس ہزار یورو کا سٹارٹ ملتا ہے جو بھی سٹارٹ ہو۔ جماعت میں آ کر اس کو سال میں پانچ چھ ہزار یورو پر کام کرنا ہو گا تو کرنا پڑے گا تبھی وقف ہے۔ اس لئے ساری دنیاوی خواہشات جو ہیں وہ ختم کرنی ہوں گی … ان ملکوں میں رہتے ہوئے خاص طور پر جب یہ Teenage شروع ہو تی ہے ، پندرہ سال سے اوپر، اپنے سکول میں دیکھ کر اپنے ماحول میں دیکھ کر بہت ساری خواہشات بڑھتی ہیں۔ ان خواہشات کو ختم کر یں گے تو وقف نو کہلائیں گے … واقف زندگی کی اپنی جو خواہشیں ہیں وہ کم سے کم ہوں تبھی وقف پورا کر سکتا ہے۔ تو اس لحاظ سے آپ کا دوسروں سے فرق ہونا چاہئے۔ Difference ہونا چاہئے آپ میں اور دوسرے لڑکوں میں۔ نہیں تو وقف کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا‘‘۔ (وقف نو کلاس جرمنی 2008ء)
حضور انور فرماتے ہیں: ’’ہمیشہ یہ دعا کریں کہ اے اللہ! ہمیشہ مجھے والدین کا بھی عہد پورا کرنے کی توفیق دے اور مجھے اپنے عہد پورا کرنے کی بھی توفیق دے اور ہر موقع، ہر تکلیف میں، ہر امتحان میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح جواب دینے والے ہوں کہ

سَتَجِدُنِیْ اِنْشَآءَ اللہُ مِنَ الصَّابِرِیْن

کہ تو مجھے انشا ء اللہ صبر کرنے والوں اور ایمان پر قائم رہنے والوں میں پائے گا۔ اگر آپ اس طرح اپنا عہد نبھاتے رہے تو تبھی آپ وقف کے میدان میں کامیاب اور اللہ کا پیار حاصل کرنے والے ہوں گے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنے والے ہوں گے اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا ہاتھ رکھ کر ہر مشکل سے نکالے گا۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر آپ پر ہو گی۔ لیکن ہر قربانی کے لئے تیار رہنا اور ہر قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو اس روح کو قائم رکھتے ہوئے اپنے ماں باپ کا اور اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔ آمین (یکم اکتوبر 2005ء)
آخر پر جرمنی کے تمام واقفینِ نَو، نوجوانوں کی نمائندگی میں ایک واقف نو نے عرض کیا: پیارے آقا! حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’جماعت احمدیہ کے قیام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ اسلام کے لئے ترقی کے سامان پیدا ہو گئے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو وقف کا وہی نمونہ دکھانا چاہئے جو آج سے چودہ سو سال پہلے صحابہؓ نے دکھایاتھا۔ اِس وقت بھی اسلام کے مخالفوں اور دشمنوں کی چھری ہماری گردنوں کی تلاش میں ہے اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ کہاں ہیں وہ واقف گردنیں جو برضا ورغبت اپنے آپ کو اس چھری کے نیچے رکھ دیں اور خداتعالیٰ کی نعمتوں کو حاصل کریں؟…… کہاں ہیں حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی بہنیں جو اپنے بچوں کو خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کریں اور کہاں ہیں حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے وہ بھائی جو دنیا کو چھوڑ کر اور دنیا کی لذت، آرام اور عیش کوچھوڑ کر خداتعالیٰ کی طرف آئیں اور اس کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں‘‘۔
(روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 4مئی 1966ء)
یا امیر المومنین! ہم تمام واقفین نو تجدید وقف کرتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم حضرت اسمعٰیل کی طرح

سَتَجِدُنیِ اِنشَآءَ اللہ

کا نعرہ لگاتے ہوئے دنیا کی لذت، آرام اور عیش کو چھوڑ کر خداتعالیٰ کی خاطر بیابانوں میں اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ اگر سیدنا وامامنا ہمیں کسی قابل سمجھتے ہوئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کسی بھی قسم کی خدمت کاموقع عنایت فرمائیں۔
سیدی! دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اس روح کو قائم رکھتے ہوئے اپنے ماں باپ کااور اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
بعد ازاں ’’پیمان وفا‘‘ کے عنوان سے درج ذیل ترانہ پیش کیا گیا:

ضائع ہم آپ کا پیغام نہ ہونے دیں گے
سرنگوں پرچم ایمان نہ ہونے دیں گے
اپنے اعمال کی تقویٰ پہ بنا رکھیں گے
دعوت فسق کبھی عام نہ ہونے دیں گے
بڑھتے جائیں گے سوئے منزل مقصود مگر
راہ میں سست کبھی گام نہ ہونے دیں گے
خدمت دیں کے عوض نفس کو اپنے ہرگز
ہم کبھی طالب انعام نہ ہونے دیں گے
لاکھ طوفان اٹھیں ظلم کے لیکن دل کو
ناشکیب آپ کے خدام نہ ہونے دیں گے
آپ سے عہد جو باندھا ہے وہ انشاء اللہ
ہم کبھی رسوا سرِعام نہ ہونے دیں گے

واقف نو، نوجوانوں کی طرف سے یہ پروگرام پیش ہونے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’اچھا پروگرا م بنا لیا ہے۔ آپ لوگوں نے نثر میں بھی ، تحریر میں بھی اور نظم میں بھی یہ عہد جو کر لیا ہے اب اس کو یہاں صرف مسجد میں یا کسی پروگرام میں آتے ہوئے ذہن میں نہیں رکھنا بلکہ اس کا فائدہ تب ہی ہوگا جب ہر واقف نو ہر وقت، ہر روز صبح اٹھ کر اپنے اس عہد کو یا د رکھے کہ میں وقف نو ہوں کیونکہ اب پندرہ سال کے بعد آپ لوگوں نے خود اپنے آپ کو پیش کردیا ہے اور وقف فارم پر کر دئیے ہیں۔ اس لئے اب اس عہد کی جگالی کرنے کی ضرورت ہے۔ روزانہ ہر روز جگالی کریں گے تب ہی آپ کو یاد رہے گا کہ وقف نو ہیں اور یہ صرف وقتی جذبہ نہیں ہے بلکہ آپ نے مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو دین کی خدمت کرنے کے لئے تیار کرنا ہے۔ اور اس کے لئے سب سے بڑی اہم ضرورت، اہم چیز دعا ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے۔ اس لئے آپ کی ہر صبح باقاعدہ فجر کی نماز کے ساتھ، وقت پر نماز کے ساتھ ہونی چاہئے۔ پھر تلاوت قرآن کریم ہونی چاہئے۔ پھر اس عہد کو ذہن میں دوہرانا چاہئے۔ پھر اس کے بعد آپ کی پڑھائی شروع ہو یا جس جس فیلڈ میں کام کرتے ہیں وہ شروع ہو۔ اگر یہ نہیں تو پھر آپ کا یہ عہد صرف زبانی دعویٰ ہو گا جو مسجد میں آ کے آپ اجلاس میں بیٹھ کر تو کردیں گے لیکن حقیقت میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس چیز کو یاد رکھیں‘‘۔

واقفین نو کے سوالوں کے جواب

حضور انور نے فرمایا: اب کسی نے کوئی سوال کرنا ہے، کوئی بات پوچھنی ہے تو پوچھ لے۔
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ میں نے گزشتہ سال Abitur کیا تھا۔ حضور انور نے مجھے ڈاکٹر بننے کی اجازت عطا فرمائی تھی۔ لیکن اس سال داخلہ نہیں ملا اور مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ ملک ہنگری (Hungary) میں اپلائی کیا تھا وہاں داخلہ ملنے کی امید ہے، کیا میں وہاں چلا جاؤں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ہاں چلے جائیں۔ اگر داخلہ ملتا ہے تو لڑکو ں کو جانے میں کوئی حرج نہیں، لڑکیوں کو تو میں روکا کرتا ہوں لیکن لڑکوں کو کوئی حرج نہیں۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہاں جرمن میں پڑھاتے ہیں۔ طالب علم نے عرض کیا وہاں جرمن میں پڑھاتے ہیں۔ ادھر جرمنی میں مجھے پانچ سال انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ ا س پر حضور انور نے فرمایا اتنا لمبا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں یا تو دوبارہ اگلے سال کی امید ہو تو ٹھیک ہے ورنہ باہر جا کر پڑھ سکتے ہیں تو ٹھیک ہے۔
نیز حضور انور نے اخراجات کے بار ہ میں بھی دریافت فرمایا کہ وہاں فیس وغیرہ زیادہ تو نہیں ہے ۔ تو طالب علم نے عرض کی کہ والدین انتظام کر دیں گے۔ حضورانور نے فرمایا اگر فیس وغیرہ کا انتظام والدین کرسکتے ہیں یا تمہارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے چلے جائیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ چیک ریپبلک میں بھی لوگ میڈیسن کے لئے جاتے ہیں۔ UK سے بھی لوگ وہاں گئے ہیں کیا وہاں انگلش میں پڑھا رہے ہیں؟ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا جی وہاں انگریزی زبان میں پڑھایا جارہا ہے۔
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ میں یونیورسٹی میں اکانومی لاء پڑھ رہا ہوں۔ لاء (Law) میں میری پڑھائی اچھی نہیں ہے۔ اکانومی میں اچھی ہے۔ اگر مجھے اجازت ہو اور جماعت کو ضرورت ہو تو کیا میں انٹرنیشنل بزنس پڑھ سکتا ہوں۔ حضور انور کے دریافت فرمانے پر طالب علم نے بتایا کہ ’’Economics بزنس‘‘ پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ٹھیک ہے یہ کر لیں۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ صرف بزنس رہ جائے اور باقی تعلیم ایک طرف ہو جائے۔ نیز فرمایا کہ یہ لکھ کر بھیجیں کہ میں یہ پڑھ رہا ہوں یا پڑھنا چاہتا ہوں اور جب مکمل کرلوں گا تو میں اطلاع دوں گا۔
ایک واقف نو طالب علم نے کہا: کمپیوٹر الیکٹرونکس پڑھنا چاہتا ہوں مجھے بہت شوق ہے اس چیز کے پڑھنے کا۔ میں حضور سے دعا چاہتا ہوں، حضور میرے لئے دعا کریں۔ حضور انور نے فرمایا دعا تو میری ہوگی لیکن آپ کو پڑھنے کا شوق ہے تو محنت بھی کرنی پڑے گی۔ طالب علم نے بتایا کہ میں ابھی الیکٹرانکس کا کام بھی کر رہا ہوں۔ پھر حضور انور کے دریافت فرمانے پر طالب علم نے بتایا کہ میں ڈپلومہ کرنا چاہتا ہوں۔
حضور انور نے فرمایا اچھاٹھیک ہے تو کریں لیکن دعا اس وقت ہو گی جب ساتھ خود بھی آپ دعا کررہے ہوں گے اور پڑھ بھی رہے ہوں گے۔ یہ صرف کہہ دینا کہ ہم نے دعا کے لئے کہا تھا منظور نہیں ہوئی، اگر آپ لوگوں کی اپنی دعائیں ساتھ نہیں ہوں گی تو کوئی فائدہ نہیں لیکن اپنے آپ کو بھی دعائوں کاپابند کریں۔
ایک طالب علم نے کہا کہ میڈیسن کے تیسرے سمسٹر میں پڑھ رہا ہوں ۔ اب Specialize کس میں کروں؟ حضور انور نے فرمایا طالب علم کی اپنی دلچسپی بھی ہوتی ہے۔ آپ کی دلچسپی کس میں ہے۔ سرجری میں دلچسپی ہے یا جنرل میڈیسن میں؟ واقف نو طالب علم نے بتایا کہ کارڈیالوجی میں دلچسپی ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ٹھیک ہے اس میں سپیشلائز کریں۔ لیکن پہلے کوالیفائی تو کریں۔ پھر اگلوں کی مرضی ہو گی کہ اس لیول کے آپ ہیں بھی کہ نہیں۔ کیونکہ ان کی بھی تو Preferences ہوتی ہیں۔ جو کالجز، یونیورسٹی ، ہاسپیٹلز ہیں یہ آپ کو اس میں سپیشلائز کروائیں گے بھی یا نہیں۔ ان کی ایک اپنی Merit List ہوتی ہے۔ اس کے حساب سے وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس میں آپ آ جاتے ہیں تو ضرور کریں۔
ایک طالب علم نے بتایا کہ اس وقت چھٹے سمسٹر میں میڈیسن پڑھ رہا ہوں اور نیوروسرجیکل ریسرچ میں پی ایچ ڈی بھی شروع کی ہے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ میڈیسن میں کتنے سال باقی رہتے ہیں۔ .Ph.D کر لیں گے تو کیا آپ کو اس کا کریڈٹ مل جائے گا۔ اس کا عرصہ کم ہو جائے گا۔ اس پر طالب علم نے بتایا کہ یہاں یہ طریق ہے کہ چھ سال کی پڑھائی کے دوران .Ph.D کر سکتے ہیں۔ اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ .Ph.D کی ڈگری مل جاتی ہے۔ حضور انور کے دریافت فرمانے پر کہ .Ph.D کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کو ریسرچ کرنے کا شوق لگتا ہے۔ اس لئے اگر آپ .Ph.D کر لیتے ہیں تو پھر ریسرچ میں جائیں۔
ایک واقف نو طالب علم نے دریافت کیا کہ ٹیچنگ کے ساتھ جرمن زبان مضمون کے طور پر رکھ سکتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا جرمن ساتھ رکھ سکتے ہیں تو رکھیں۔
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ اس سال Abitur کیا ہے۔ کیا میں یونیورسٹی میں فزکس پڑھ سکتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا اگر فزکس میں دلچسپی ہے۔ پھر آگے ماسٹرز کرنا ہے فزکس میں، .Ph.D کرنی ہے اور ریسرچ کا ارادہ لگتا ہے تو ٹھیک ہے ضرور جاؤ لیکن اطلاع ساتھ ساتھ کرنی ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
ایک واقف نو طالب علم نے بتایا کہ فوج میں رہ کر میڈیسن کرنے کا پروگرام ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پھر فوج کی یہ شرائط بھی ہوں گی کہ پانچ سال، دس سال سروس کرو۔ حضور انور نے فرمایا جو موجود کریڈٹس آپ کے پاس ہیں اس میں میڈیکل میں داخلہ نہیں مل سکتا اور فوج میں جانے کے بعد آپ کو بہتر مل جائے گا توٹھیک ہے لیکن ساتھ ساتھ آپ اطلاع کرتے رہیں کہ کیا صورتحال ہے۔ سات سال کی سروس کے بعد یہ نہ ہو کہ اب مجھے بڑے میڈل ملتے جا رہے ہیں۔ میرا High Rank بن رہا ہے تو اب مجھے چھٹی دے دی جائے کہ اب میں فوج میں رہوں۔ یہ تو ارادہ نہیں؟
حضور انور نے فرمایا سات سال تک اجازت ہے اس سے زیادہ نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا۔ پائلٹ کی تو فی الحال ضرورت نہیں ہے۔ اگر تیسری جنگ عظیم ہو جائے تو شائد ضرورت پڑے ہی نہ، پھر Cyclists اور Horse Riders کی ضرورت پڑے گی۔
ایک طالب علم جس نے IT میڈیا میں کورس کرنا تھا۔ اسے حضور انور نے فرمایا کہ صرف پروگرامنگ کا کورس ہے یا پروڈکشن بھی ہے اور پروگرامنگ بھی فرمایا پڑھ کر پھر واپس آ جاؤگے۔ وقف جاری رکھنا ہے۔ MTA میں کام آسکتے ہیں۔
ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ترکی زبان پڑھنی ہے تو کیا ساتھ Hebrew نہیں پڑھ سکتے۔ بطور زائد زبان لینی پڑتی ہے تو ساتھ یہ زبان بھی کرلو۔ عربی پڑھنی ہے تو ساتھ ہی Hebrew بھی پڑھو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں