نیلسن رولی ہلاہلا منڈیلا

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 3؍فروری 2023ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 11؍دسمبر 2013ء میں مکرم عطاءالوحید باجوہ صاحب کے قلم سے انسانی حقوق کے عظیم لیڈر نیلسن رولی ہلاہلامنڈیلا (Nelson Rolihlahla Mandela) کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔

نیلسن رولی ہلاہلا منڈیلا

نیلسن منڈیلا 18؍جولائی1918ء کو جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے اور اپنے ملک کے پہلے سیاہ فام جمہوری منتخب صدر بنے۔ ان کا دور صدارت 1994ء تا 1999ء تھا۔ اس دوران انہوں نے جنوبی افریقہ کو ایک نیا آئین بھی دیا۔
نیلسن منڈیلا قانون کے طالب علم تھے اور ایک وکیل کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں حصہ لینے پر انہوں نے قیدبامشقّت بھی کاٹی۔ وہ مجموعی طور پر قریباً ستائیس سال پابند سلاسل رہے۔ 11؍فروری1990ءکو شدید بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اُن کی رہائی عمل میں آئی۔ پھر انہوں نے تحریک کو خیرباد کہتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنایا اور اپنے ملک میں ہونے والے نسلی امتیاز کے مسئلے کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
1991ء سے 1997ء تک وہ افریقی نیشنل کانگریس کے صدر بھی رہے۔ جنوبی افریقہ میں اُن کو قوم کے باپ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 1999ء میں صدارت سے سبکدوشی کے بعد انہوں نے سیاست کو خیرباد کہا اور ‘نیلسن منڈیلا فاؤنڈیشن’ قائم کی جس کا مقصد ایڈز کے بارے میں آگاہی دینا، غیرترقی یافتہ علاقوں کی بہبود اور سکولوں کا قیام تھا۔ اس مقصد کے لیے عطیات اکٹھے کرنے کے لیے 2000ء میں ایک گولف ٹورنامنٹ کی بنیاد رکھی۔ نیلسن منڈیلا کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں اڑہائی صد سے زیادہ انعامات سے نوازا گیا جن میں 1993ء میں نوبیل انعام برائے امن بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کا صدارتی تمغہ امتیاز برائے آزادی اور سوویت آرڈر آف لینن بھی دیے گئے۔
2003ء میں منڈیلا نے آکسفورڈ میں ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد افریقن کو پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں دینا تھا۔ کئی دیگر ادارے بھی قائم کیے اور بہت سی فلاحی تحریکوں کی قیادت اور راہنمائی بھی کی۔ انہوں نے افریقہ کے لیے مالی مدد کے حصول کے لیے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا۔
2008ء میں اُن کی 90ویں سالگرہ کئی ممالک میں منائی گئی۔ نومبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں امن و آزادی کے لیے کی جانے والی اُن کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال 18؍جولائی کو ’’یوم منڈیلا‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
دنیا کا یہ عظیم شخص 5؍دسمبر 2013ء کو 95سال کی عمر میں اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔
=================
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ 16؍دسمبر 2013ء میں مکرم فضیل عیاض احمد صاحب نے نیلسن منڈیلا کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صوبہ Cape کے ایک گاؤں مویزو (Mvezo) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق Xhosa قبیلے سے تھا۔ جب سکول میں داخل ہوئے تو سکول ٹیچر نے انگریزی نام نیلسن دیا۔ سکول میں داخل ہونے والے آپ اپنے خاندان کے پہلے بچے تھے۔ گو آپ نے وکالت میں ڈگری لی لیکن سماجی اور سیاسی راہنما کے طور پر شہرت پائی۔

نیلسن رولی ہلاہلا منڈیلا

1948ء میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نیشنل پارٹی کی پہلی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد نسل پرستی کے سیاہ قانون لاگو کیے گئے اور سیاہ فاموں سے اُن کی سرزمین پر انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا حق چھین لیا گیا، انتخابات میں ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ اُن کو صرف مقررہ علاقوں میں رہنے کی اجازت تھی، سیاہ فاموں کی مختلف نسلوں کے درمیان شادی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
1912ء میں سیاہ فام افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے افریقی نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ 1942ء میں نیلسن منڈیلا اس تنظیم کے رُکن بن گئے۔ 1955ء میں انہوں نے اس کے فریڈم چارٹر میں لکھا کہ جنوبی افریقہ اُن تمام لوگوں کا ہے جو یہاں رہتے ہیں، سیاہ فام ہوں یا سفید فام، کوئی بھی اُس وقت تک حکومت کرنے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کی پاسبانی کا وعدہ نہ کرے۔ ایک سال بعد نیلسن منڈیلا سمیت 156کارکنوں کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 1960ء میں سیاہ فام مظاہرین پر گولیاں برساکر 69افراد ہلاک کردیے گئے۔اس قتل عام کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بغیر مقدمے کے جیل بھیج دیا گیا جن میں منڈیلا بھی شامل تھے۔ 1964ء میں بدامنی کے الزام میں انہیں عمرقید کی سزا ہوئی۔
اگرچہ دنیا کی سفید فام حکومتیں کھل کر جنوبی افریقہ کی سفید فام حکومت کے خلاف کارروائی نہ کرتی تھیں لیکن دنیا میں نسل پرستی کے خلاف جاری تحریک نے بتدریج جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ فروری 1990ء میں منڈیلا کو رہا کردے۔ 1994ء میں وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تو ملک سے نسل پرستی کا خاتمہ کرکے ایک ایسی جمہوریت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جس میں سارے نسلی، مذہبی اور لسانی گروہوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
نیلسن منڈیلا کی فکر اور شخصیت پر بہت کام ہورہا ہے۔ 5؍دسمبر 2013ء کو اُن کی وفات ہوئی۔ اُن کی اہلیہ گریشامچل پہلے ہی وفات پاچکی تھیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں