والدین کا بزرگانہ مرتبہ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ جون 2011ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے ایک تربیتی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں والدین کے حقوق پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوتا ہے کہ والدین کے بڑھاپے کی صورت میں کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُن سے اُف تک نہ کہو، ہمیشہ نرمی سے بات کرو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے ربّ! ان پر مہربانی فرمایا کیونکہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے مخاطب آنحضورﷺ ہیں لیکن دراصل امّت مراد ہے کیونکہ آپؐ کے والدین تو خوردسالی میں فوت ہوچکے تھے۔ اور یہ بھی کہ اگر مخاطب آنحضرتﷺ ہیں تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیے۔ پھر اگلی آیت میں بُت پرستی سے منع کیا گیا ہے تاکہ سمجھایا جائے کہ اگر خدا کے بعد کسی کی پرستش کروانی ہوتی تو وہ والدین ہوتے کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیںاور خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے۔
کسی شخص کے پوچھنے پر کہ والدین کی وفات کے بعد کونسی نیکی اُن کے لیے کی جائے، آنحضورﷺ نے فرمایا کہ اُن کے لیے دعائیں کرو، اُن کے لیے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو، اُن کے عزیزواقارب سے اسی طرح صلۂ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں اُن کے ساتھ کیا کرتے تھے اور اُن کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ نیز حدیث یہ بھی ہے کہ جس شخص کی خواہش ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو اور رزق میں فراوانی ہو تو اُس کو چاہیے کہ اپنے والدین سے حُسنِ سلوک کرے اور صلۂ رحمی کی عادت ڈالے۔
والدین کی آمد پر خوشی کا اظہار بھی ضروری ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ اپنے باپ کے استقبال کے لیے آگے گئے تھے۔ اسی طرح سوتیلے والدین کا بھی احترام کیا جانا چاہیے کہ یہی سنّتِ انبیاء بھی ہے۔ چنانچہ حضرت یوسفؑ کی والدہ سوتیلی تھیں لیکن وہ اُن کا احترام بھی حقیقی ماؤں جیسا ہی کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ مزید فرماتے ہیں کہ والدین کے وجود سے خداتعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت ملتی ہے۔ کیونکہ والدین طبعی قانون کا ایسا ظہور ہیں جو قانونِ شریعت کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوا۔اور اب سلسلۂ تناسل کے ذریعہ پیدائش کا مقصد بھی بہت بڑا ہے اسی لیے توحید کے حکم کے بعد والدین کے متعلق احسان کا حکم دیا کیونکہ ایک احسان کی قدر دوسرے احسان کی قدر کی طرف توجہ کو پھراتی ہے۔
ایک بزرگ حج کا عزم کرکے حضرت ابوحازم مکّی کی خدمت میں پہنچے۔ وہ سو رہے تھے۔ بیدار ہونے پر انہوں نے اُس بزرگ سے فرمایا کہ پیغمبر خدا ﷺ نے خواب میں آکر مجھے تمہارے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ اپنی ماں کے حق کا خیال کرو تمہارے لیے یہ حج کرنے سے بہتر ہے۔ لَوٹ جاؤ اور اُن کے دل کی رضا طلب کرو۔ چنانچہ وہ بزرگ حج کرنے کی بجائے واپس لَوٹ گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں