ورزش اور اس کی اہمیت – جدید تحقیق کی روشنی میں

ورزش اور اس کی اہمیت – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ورزش اور کھیلوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیابھر میں ایسے تجارتی ادارے ترقی کررہے ہیں جو لوگوں کی اس حوالے سے رہنمائی کرتے ہیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں نے اپنی زندگیوں کے مثبت پہلوؤں کو روشن ہوتے ہوئے محسوس بھی کیا ہے۔ ورزش کے حوالے سے چند اصول ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں جو جدید تحقیقی رپورٹس میں بیان ہوئے ہیں:
٭ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ آپ کو اُس وقت اپنی ورزش سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے جب تک آپ کو پسینہ نہیں آجاتا۔ امریکہ میں ایک متعلقہ ادارے کے ترجمان کے مطابق ایسی ورزش ناکافی ہے جو روزانہ نصف گھنٹے تک کی جائے اور اُس کے نتیجے میں پسینہ نہ آئے۔ اُس کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ہفتے میں کم از کم پانچ دن نصف گھنٹے کی درمیانی ورزش کرنی چاہئے یا ہفتے میں تین دن بیس منٹ کی تیز ورزش یعنی دوڑ وغیرہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگرچہ ورزش کے دورانئے اور اس کو تیزی سے کرنے کے بارے میں ابھی ماہرین کی آراء تضاد کا شکار ہیں۔ تاہم اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ باقاعدہ ورزش انسانی صحت کے لئے بہت ضروری اور فائدہ مند ہے۔ جبکہ عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ روزانہ نصف گھنٹے کی ورزش کرنا ، صحت کو کم از کم معیار پر برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
٭ ہالینڈ کے ڈاکٹر آسکر فرانکو نے اپنی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج ظاہرکرتے ہوئے بتایا ہے کہ جو افراد باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں وہ نہ صرف صحتمند رہتے ہیں بلکہ زیادہ عرصے تک زندہ بھی رہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ورزش کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنالینے سے عمر میں کم از کم ساڑھے تین سال کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ رپورٹ میں بڑی عمر کے بعض ایسے افراد کی مثالیں بھی دی گئی ہیں جو باقاعدگی سے کلب میں اکٹھے ہوکر ورزش کرتے ہیں۔ اُنہی میں ایک جولیان میئرز ہیں جن کی عمر 90 سال ہے اور وہ روزانہ پانچ کلومیٹر جاگنگ کرتے ہیں اور چالیس سال سے مسلسل میراتھن دوڑ میں شامل ہورہے ہیں۔ اس کلب کے صدر کی عمر 72 سال ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر فرانکو کی تحقیق میں چار ہزار سے زیادہ افراد کو زیرمشاہدہ رکھا گیا تھا اور یہ طویل تحقیق چالیس سال پر محیط تھی۔
٭ امریکہ اور اٹلی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ستر سال اور اُس سے بڑی عمر کے 168 افراد کے جائزے کے دوران اُن کی روزانہ ورزش کا دورانیہ معلوم کرکے بتایا گیا ہے کہ مصروف اور جسمانی طور پر چست زندگی گزارنے والے افراد میں دل کے حملے کے بعد شریانوں کی رکاوٹ نسبتاً جلدی دُور ہوجاتی ہے۔ مذکورہ مریضوں کو تین مختلف درجات میں تقسیم کیا گیا جن میں روزانہ پندرہ منٹ دورانیے سے کم ورزش کرنے والے، پندرہ سے تیس منٹ تک ورزش کرنے والے اور تیس منٹ سے زائد ورزش کرنے والے افراد کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیا گیا۔ اس ورزش میں پیدل چلنا، باغبانی کرنا اور سائیکل چلانا وغیرہ شامل تھا۔ معلوم ہوا کہ اینجیوپلاسٹی کے بعد زیادہ ورزش کرنے والے مریضوں میں صحت یاب ہونے کا رجحان دوسروں کی نسبت نمایاں طور پر بہتر دیکھنے میں آیا۔ زیادہ ورزش کرنے والے مریضوں میں دوبارہ دل کے حملے کے امکانات بھی کہیں زیادہ کم تھے۔ تحقیق کرنے والے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ دل کے حملے کی صورت میں جسمانی طور پر چست زندگی بسر کرنے سے اس بیماری کو دُور رکھنے کے امکانات میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے۔
٭ تین یورپی ممالک میں تحقیقی مطالعہ کے بعد طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جسمانی طور پر چاق و چوبند رہنے اور جسمانی ورزشیں اور کام کاج سے معمر افراد بڑھاپے میں بھی اپنی ذہانت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ انسانی دماغ کی حقیقی بلندی چالیس سال کی عمر کے بعد دیکھی جاسکتی ہے۔ لیکن جس طرح جسمانی ورزش سے جسم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، اُسی طرح دماغی ورزشیں بھی دماغ کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ انسانی دماغ لاشعوری طور پر سانس لینے، درجہ حرارت برقرار رکھنے اور غذا ہضم کرنے میں معاونت کرتا ہی ہے لیکن ان عوامل کا ہم واضح ادراک نہیں رکھتے۔ تاہم دماغ کے ہزاروں شعوری فرائض میں سوچنا، سیکھنا اور یاد رکھنا شامل ہیں۔ اگر دماغی ورزشوں کو باقاعدگی سے سرانجام دیا جائے تو دماغ کے سوچنے، سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت کو لمبی جسمانی عمر تک برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
٭ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ جسمانی طور پر چاق و چوبند رہنے اور جسمانی ورزشیں اور کام کاج سے معمر افراد بڑھاپے میں بھی اپنی ذہانت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کے رُکن ممالک کے ماہرین کی ایک ٹیم نے فِن لینڈ، اٹلی اور ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے 295 صحت مند افراد کا مطالعاتی تحقیقی جائزہ لیا جس کے تحت ان افراد سے دس برس کے دوران جسمانی ورزشوں، چہل قدمی، سائیکل چلانے، باغبانی یا کھیتی باڑی کرنے، کھیل کود، محنت مشقّت والے کاموں اور دیگر مشاغل سے متعلق معلومات حاصل کیں۔ ماہرین نے ان افراد میں سے جسمانی ورزش نہ کرنے والے افراد کو الگ گروپ میں رکھ کر یادداشت، ذہنی صلاحیتوں، ارتکاز، زبان سیکھنے کی صلاحیتوں اور مختلف علوم سیکھنے کی صلاحیتوں کے بارے میں مختلف ٹیسٹ لئے جن کے نتائج کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ جسمانی ورزش اور کام کاج سے نہ صرف ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ بڑھاپے میں بھی ذہانت کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
٭ سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک ایسی دوا کی تیاری میں مصروف ہیں جو ورزش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جسمانی تھکاوٹ کو دُور کرے گی اور اس دوا سے دل کے عارضے میں مبتلا مریض بھی استفادہ کرسکیں گے۔ کولمبیا یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے تحقیق کے نتیجے سے معلوم کیا ہے کہ ورزش کے بعد ہونے والی تھکاوٹ کی اصل وجہ پٹھوں کے خلیوں سے کیلشیم کا رسنا ہوتی ہے۔ چنانچہ انہوںنے ایسی دوا تیار کی ہے جس سے کیلشیم کا رسنا بند ہوجاتا ہے اور ورزش کے بعد تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ اب تک اس دوا کے تجربات چوہوں پر کئے گئے ہیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس دوا سے نہایت کمزوری کی وجوہات کا علاج بھی کیا جاسکے گا۔ اس تحقیق سے پہلے تک خیال کیا جاتا تھا کہ سخت ورزش کے بعد تھکاوٹ کی وجہ پٹھوں پر لیکٹک ایسڈ کا جمع ہونا ہے لیکن جدید تحقیق سے پہلا خیال درست ثابت نہیں ہوا۔ نئے تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ کیلشیم کے پٹھوں سے رِسنے کا عمل چوہوں میں تین ہفتے کی سخت تیراکی اور انسانوں میں تین دن کی سخت سائیکلنگ کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اور عام طور پر جسم اس قابل ہوتا ہے کہ وہ خودبخود کیلشیم رِسنے کے اس عمل کو درست کرسکے۔ تاہم دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں میں کیلشیم رِسنے کا عمل چونکہ مسلسل رہتا ہے اور پٹھوں کو دوبارہ کیلشیم اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا اس لئے یہی وجہ ہے کہ دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کے جسم میں خون اور آکسیجن کی کمی سے تھکاوٹ جلدی اور زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ نئی دوا کو جب ایسے چوہوں پر استعمال کیا گیا جو ورزش کے نتیجے میں شدید تھکاوٹ کا شکار تھے، تو دوا کے استعمال کے بعد ورزش کے باوجود وہ چوہے بھرپور توانائی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اگلے مرحلے میں اس دوا کو دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں پر استعمال کرنے کا منصوبہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں