وفائے عہد کی بے نظیر داستانیں

ماہنامہ ’’خالد‘‘ مئی 2012ء میں مکرم محمد اکرم صاحب کے قلم سے سانحہ لاہور کے چند شہداء کے ایسے کلمات بیان ہوئے ہیں جو ان شہداء کی غیرمعمولی استقامت، بے مثال صبر و وفا اور بے نظیر جرأت کی خبر دیتے ہیں اور جنہیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبات جمعہ میں بھی بیان فرمایا ہے۔
٭…موت کو سامنے دیکھ کر بھی وہاں موجود کسی احمدی نے خوف کا اظہار نہیں کیا نہ زندگی کی بھیک دہشت گردوں سے مانگی بلکہ دعاؤں میں مصروف ر ہے اور یہی کوشش رہی کہ اپنی جان دے کر دوسروں کو بچائیں۔
٭…ایک احمدی نے لکھا کہ مَیں ربوہ سے گیا تھا۔ ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اُٹھاتا رہا توآخر میں اُس نے میرے ساتھ مل کر ایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچاکر کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں۔ اور پھر یہ نہیں کہ ایمبولینس کے ساتھ چلاگیا بلکہ واپس مسجد میں جاکر اپنی ڈیوٹی میں مستعد ہوگیا۔
٭…مکرم کامران ارشد صاحب 1994ء سے MTA میں رضاکارانہ خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ فائرنگ کے وقت بھی ریکارڈنگ میں مصروف رہے اور فائرنگ کی زَد میں آکر شہید ہوگئے۔
٭…مکرم محمد آصف فاروق صاحب بھی MTA کی ریکارڈنگ میں مصروف تھے اور اسی ڈیوٹی کے دوران فائرنگ کی زَد میں آکر شہید ہوئے۔ کہا کرتے تھے کہ میرا جینا اور مرنا یہیں دارالذکر میں ہے۔
٭…مکرم شیخ شمیم احمد صاحب امیر صاحب کے سامنے کھڑے رہے۔ دہشت گرد نے پوچھا کہ تیرے پیچھے کون ہے؟ انہوں نے کہا: میری بیوی، میرے بچے اور میرا خدا۔ تو دہشت گرد نے کہا کہ چل پھر اپنے خدا کے پاس۔ اور پھر گولیاں برسادیں۔
٭…مکرم محمد شاہد صاحب محراب کے ساتھ ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ شہادت سے قبل اپنے والد صاحب اور دوستوں کو فون پر کہا کہ مَیں ان دہشت گردوں کو پکڑنے کی کوشش کروں گا۔ چہرے پر ناخن لگنے کے نشان تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے۔
٭…مکرم ناصر محمود خان صاحب کی طرف دہشت گرد نے گرنیڈ پھینکا تو انہوں نے اپنے ہاتھ پر روک لیاکہ واپس اُس کی طرف لَوٹادیں۔ لیکن اتنی دیر میں وہ گرنیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچالی۔
٭…مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب سنتیں ادا کررہے تھے کہ شیلنگ شروع ہوگئی۔ آپ نے سلام پھیر کر اپنی بنیان اُتار کر ایک لڑکے کے زخموں کو باندھا اور اس کو تسلّی دی۔ پھر انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشت گرد کو پکڑ کر گرانے اور قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی دوران دوسرے دہشت گرد نے گولیاں مارکر ان کو شہید کردیا۔
٭…مکرم نورالامین صاحب دارالذکر کے ڈش انٹینا کے پیچھے چھپ گئے اور گھر فون کیا۔ ان کی اہلیہ نے کہا کہ آپ وہاں سے نکل آئیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ یہاں بہت لوگ پھنسے ہوئے ہیں، مَیں اُن کو چھوڑ کر نہیں آسکتا۔ آخر آپ گرنیڈ لگنے سے شہید ہوگئے۔
٭… حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ شہداء تو اپنا مقام پاگئے مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلاگئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماؤں! میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں