پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ (نمبر2)

(اداریہ رسالہ انصارالدین ستمبر و اکتوبر2022ء)
علم نفسیات کی تعریف کی رُو سے ہر ایسی چیز منشّیات میں شمار ہوتی ہے جس کے استعمال کے بغیر کوئی انسان نارمل زندگی گزارنے کا اہل نہ ہوسکے۔ چنانچہ بعض بے ضرر اور عام سی اشیائے خورونوش بھی اسی زمرے میں آسکتی ہیں۔ مثلاً بعض لوگوں کو ایک دن اگر چائے نہ ملے تو سر میں درد ہوجاتا ہے، کسی کام کرنے کو دل نہیں کرتا جسم ٹوٹتا رہتا ہے اور چائے کی پیالی پیتے ہی سکون آجاتا ہے ۔ لیکن ایسی ادویات اور دیگر مُضر اشیاء بھی آج بکثرت دستیاب ہیں جو باقاعدہ نشہ آور ہیں، جن کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اُن کا استعمال سراسر نقصان ہے۔ اُن کی تیاری کا مقصد بھی یہی ہے کہ دوسروں کو ان کا عادی بناکر مالی منفعت حاصل کی جائے۔ ان کے استعمال کے بعد دماغ کی کارکردگی متاثر ہوجاتی ہے۔ کسی دوا کے کھانے کے بعد نیند آنے لگتی ہے اور کسی دوا کے استعمال سے نیند اُڑ جاتی ہے اور کسی دوا کی عدم دستیابی پر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی جاتی رہتی ہے۔
منشیات کے ابتدائی استعمال کی ایک مثال سگریٹ کی عادت ہے۔ چنانچہ سگریٹ نوشی کے عادی افراد اگر ایک دن بلکہ چند گھنٹے بھی تمباکونوشی نہ کرسکیں تو اُنہیں عجیب بے چینی کا سامنا ہوتا ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا ، کوئی کام کرنا بھی چاہیں تو توجہ قائم نہیں رہتی۔ لیکن صرف سگریٹ کے دوکش لگاتے ہی تمام اداسی غائب ہوجاتی ہے اور زندگی معمول پر آجاتی ہے۔ پس عام تعریف میں نشہ وہ چیز ہے جس سے دماغ کی کارکردگی متاثر ہوجائے یعنی اس کی ایسی عادت پڑجائے کہ اس کے استعمال کے بغیر جینا دوبھر ہو جائے۔
سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی پیاری جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اے عقلمندو! یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں۔ تم سنبھل جاؤ۔ تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو۔ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو… ہر ایک نشہ جو ہمیشہ کے لیے عادت کرلیا جاتا ہے وہ دماغ کو خراب کرتا اور آخر ہلاک کرتا ہے۔ سو تم اس سے بچو۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ تم کیوں ان چیزوں کو استعمال کرتے ہو جن کی شامت سے ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کاعذاب الگ ہے۔ پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ۔ حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے۔ حد سے زیادہ بدخلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے۔‘‘ (کشتی نوح ۔روحانی خزائن۔جلد 19صفحہ 70)
اگرچہ آج دنیا کا کوئی معاشرہ اور خطّہ ایسا نہیں ہے جو نشہ آور اشیاء کے استعمال سے کلیۃً پاک ہو لیکن خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بحیثیت مجموعی اس بلا سے بہت حد تک محفوظ نظر آتی ہے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے سر پر ایک ایسے بابرکت وجود کا سایہ ہے جس نے احمدی نسلوں کی حفاظت کے لیے اپنے آرام کو قربان اور اپنی دعاؤں کو وقف کررکھا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نسلیں بیرونی اثرات کے زیراثر معاشرتی بداثرات سے متأثر ہوتی جارہی ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں سے لے کر دوستوں کی محفلوں تک ہرجگہ ایسے عوامل پائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک نوجوانوں میں سرایت کرسکتے ہیں۔ پس انصار کی خاص طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں، مساجد اور اپنے ماحول میں موجود احمدی بچوں پر شفقت کی نگاہ رکھیں اور مجلس انصاراللہ کے اپنے عہد کے مطابق اپنی نسلوں کی تربیت اور معاشرتی بداثرات سے اُن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہرممکن کوشش کریں تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اسلام احمدیت کی سچی خادم، حضرت اقدس محمدرسول اللہﷺ کی عاشق صادق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے عظیم الشان مقاصد کو پورا کرنے والی ہوں اور ہمارے لیے بھی بخشش کا ذریعہ بن جائیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس اہم ترین ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے خاص طور پر دعاؤں اور صدقات سے بھی مدد لیں۔
اپنے ماحول میں رہنے والوں کو نشے کی عادت میں مبتلا ہونے سے بچانے لیے کم از کم تین اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے:
اوّل یہ کہ بہت چھوٹی عمر سے نشہ کے متعلق تعلیم اور تربیت کی جائے اور تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال سے نفرت ابتدائی عمر میں ہی ذہن نشین کروادی جائے۔ یعنی اس کی عادت ہی پڑنے نہ دی جائے۔ مثلاً ہمیں اپنے بچوں کو بچپن سے ہی آگاہ کرتے رہنا چاہیے کہ سگریٹ نوشی نشہ ہے اور صحت کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ اسی طرح شراب اور افیم وغیرہ کے متعلق بچوں کو علم دیا جائے کہ یہ نقصان پہنچانے والی چیزیں ہیں اور ان سے بچنا ضروری ہے۔ دوم یہ کہ ایسی قباحتوں کو فروغ دینے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت تعزیری کارروائی کی کوشش کی جائے۔ اور سوم یہ کہ اگرچہ حکومت اور معاشرے کا فرض ہے کہ نشہ آور اشیاء کے خلاف ایسے قوانین بنائیں جن کے ذریعے سے نشہ آور چیزوں کی فراہمی نہ ہوسکے لیکن والدین اور قوم کے تمام دوسرے بزرگوں کو عمومی طور پر اس امر کی نگرانی کرنی چاہیے کہ اُن کے ماحول اور معاشرے میں کسی قسم کی نشہ آورچیزیں دستیاب نہ ہوسکیں اور ہرعمر کے لوگ ان چیزوں سے دُور رہیں۔ اگرچہ برطانیہ میں ایک خاص عمر سے کم عمر کے افراد کو سگریٹ یا شراب فروخت کرنا انتہائی سنگین جرم ہے لیکن حیرت ہے کہ ایک چیز جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے لوگوں کے لیے اتنی مضر ہے تو اس عمر کے بعد وہی چیز مضر کیوں نہیں رہتی۔ دراصل مالی منفعت کی وابستگی نے قوانین کو بھی محدود کررکھا ہے۔
اس حوالے سے یہ امر بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ہمارا کوئی بچہ یا کوئی بھائی اس بدعادت کا شکار ہوجائے توناجائز ڈانٹ ڈپٹ اور غیرضروری جبر اختیار کرنے کی بجائے ہمدردی، محبت اور دعا کے ساتھ اُس کی مدد اور رہنمائی کرنی چاہیے۔ گو کہ ہر نشہ آور چیز کی عادت چھڑانے کا علاج مختلف ہے لیکن بعض ایسے اصول بھی ہیں جو ہرنشے کی عادت کے دور کرنے اور اس سے چھٹکار۱ پانے کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ان لوگوں کو باربار قرآن کریم کی اس تعلیم سے آگاہ کیا جائے کہ ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوا اور بُت اور تیروں سے قسمت آزمائی یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔‘‘ (سورۃالمائدہ :91)
ایک اور جگہ فرمایا: ’’وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ (بھی) ہے اور لوگوں کے لیے فوائدبھی اور دونوں کا گناہ (کا پہلو) ان کے فائدہ سے بڑھ کر ہے…‘‘ (البقرہ: 220)
نشہ کے زیراثر اپنے ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکنے والوں کو تو قرآن کریم نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!تم نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم پر مدہوشی کی کیفیت ہو۔ یہاںتک کہ اس قابل ہو جاؤ کہ تمہیں علم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہوــ…‘‘ (سورۃالنساء :44)
ہم جانتے ہیں کہ بعض نشہ آور اشیاء بازار میں فروخت ہونے والی دواؤں میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ چنانچہ بعض لوگ مخصوص دواؤں کے نشے میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم نے یہ سنہری اصول ہمارے لیے زندگی گزارنے میں بہت مددگار ہوسکتا ہے کہ ایسی چیزوں سے بچنا چاہیے جن کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہوں۔
احمدی معاشرے میں سگریٹ نوشی کے خلاف خاص طور پر ردّعمل دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بدعادت دراصل کئی جسمانی اور اخلاقی بیماریوں کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے بلکہ بہت سے افراد میں اسی عادت کی شدّت دیگر نشوں میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بہرحال جو دوست اسے ترک کرنا چاہتے ہیں اُن کے لیے انسانی دماغ پر کی جانے والی یہ تحقیق دلچسپی کا باعث ہوگی کہ ہلکی ورزش بھی تمباکو نوشی ترک کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔ یہ تحقیق ایک تحقیقی جریدے ’سائیکو فارمالوجی‘ میں شائع کی گئی تھی۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں دماغ کے عمل میں ہونے والی تبدیلی سے سگریٹ پینے کی خواہش کم ہو سکتی ہے۔ اس تحقیق نے اُن شواہد کی بھی تائید کردی ہے کہ ورزش سے نکوٹین اور دوسری چیزوں کے نشے کو دُور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اور یہ کہ صرف درمیانے درجے کی ورزش سے نکوٹین پینے کی خواہش میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس تحقیق میں شامل سگریٹ نوشوں کے ایک گروپ کو دس منٹ تک سائیکل چلانے کی ورزش کے بعد جبکہ ایک دوسرے گروپ کو بغیر ورزش کے ہی ایسی تصاویر دکھائی گئیں جن میں سگریٹ نوشی کی تحریک کی گئی تھی۔ پھر ان تمباکونوشوں سے نکوٹین پینے کی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا اور ان کے دماغ کا سکین بھی کیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ دونوں گروپوں کے دماغوں میں تصاویر دیکھنے سے مختلف قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ورزش نہ کرنے والوں کے دماغ کے اُن حصوں میں نمایاں سرگرمی دیکھی گئی جو تمباکونوشی کے لیے تحریک کرتے ہیں جبکہ ورزش کرنے والے گروپ کے دماغ کے اُن حصوں میں کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔ اس سے قبل اسی یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ ورزش سے نکوٹین کی خواہش میں کمی آسکتی ہے۔
خداتعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو ہر بدعادت اور ہر شر سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(محمود احمد ملک)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں