چند بزرگوں کا ذکرخیر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍اپریل 1999ء میں حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے قلم سے سلسلہ کے چند بزرگوں کا ذکر خیر ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
محترم چودھری نذیر احمد خادم صاحب باجوہ ایڈووکیٹ
آپ 21؍دسمبر 1964ء کوایک برات کے ساتھ سرگودھا سے سیالکوٹ واپس جا رہے تھے کہ آپ کی کار سیالکوٹ پہنچنے سے دس میل پہلے ایک ٹرک سے ٹکراگئی۔ آپ چوٹوں کی وجہ سے بیہوش ہوئے اور سیالکوٹ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے دوا اور علاج کی ہر ممکن کوشش کی۔ لاہور سے بھی ماہر ڈاکٹر بلائے گئے لیکن آپ اُسی رات دس بجے پچپن سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اگلے روز جنازہ ربوہ پہنچا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
آپ بڑے ذہین و فطین وکیل تھے۔ کئی مشہور جج آپ کی قابلیت کے معترف تھے۔جماعت کے قانونی معاملات میں آپ کے مشوروں کی ضرورت سمجھی جاتی تھی اور آپ ہر مصروفیت چھوڑ کر ربوہ یا لاہور پہنچ جایا کرتے تھے اور سلسلہ کے کام کو مقدم ٹھہراتے تھے۔ بڑے متین اور منکسرالمزاج تھے، کبھی کسی کی بات کو نہ کاٹتے اور نہ بات کرنے میں سبقت لے جاتے۔ اپنی باری پر انکسار لیکن پوری خوداعتمادی سے صائب اور وقیع رائے کا اظہار کرتے۔ تکلّف اور تصنع سے دور، بڑے فراخدل، مہمان نواز اور رکھ رکھاؤ کرنے والے تھے۔
1919ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مجھے فرمایا تھا کہ آئندہ زمانہ میں جماعت کو وکلاء کی بڑی ضرورت پیش آئے گی۔ بعد کے واقعات نے حضورؓ کی اس فراست اور پیش بینی کی تصدیق کی اور جماعت کے جن وکلاء کو خدمت سلسلہ کی خوب توفیق ملی اُن میں نذیر احمد صاحب بھی تھے۔ آپ ضلع سیالکوٹ کے نائب امیر تھے۔
محترم حاجی فضل محمد صاحب کپورتھلوی درویش قادیان
آپ موضع بجولہ ریاست کپورتھلہ کے رہنے والے تھے۔ 26؍نومبر 1966ء کو قادیان میں وفات پائی۔ 1920ء میں جب آپ ملازمت سے سبکدوش ہوکر کپورتھلہ آئے تو آپ کے تعلقات میرے والد صاحب سے پیدا ہوگئے اور اُن کی دعوت الی اللہ سے آپ نے احمدیت قبول کرلی اور اخلاص اور قربانی میں ترقی کرتے چلے گئے۔ گو آپ کی تعلیم معمولی تھی لیکن بڑے ذہین آدمی تھے۔ منطقی جرح کے ساتھ مسائل کو اس طریق پر پیش کرتے کہ مخالف لاجواب ہوجاتا۔ آپ کی دعوت الی اللہ سے بھی بعض دوستوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
جب حضرت مصلح موعودؓ نے قیام پاکستان کے بعد ایک قافلہ درویشوں کا قادیان بھجوایا تو محترم حاجی صاحب بھی اس میں شوق سے شامل ہوئے اور پھر آخر دم تک اپنے عہد کو نبھایا۔
محترم میاں محمد اسماعیل صاحب لائلپوری
آپ 1947ء میں داراپور ضلع گورداسپور سے لائلپور آئے تو بالکل تہی دست تھے لیکن خوب محنت سے انہوں نے تجارت شروع کی تو چند ہی سال میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے۔ 1952ء میں آپ کی گھی کی دکان سرِبازار لوٹی گئی لیکن آپ کوئی شکایت زباں پر لائے بغیر اپنے کام میں مگن رہے۔ 1953ء میں اس سے بھی زیادہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے انہیں بخوشی برداشت کیا۔ اس کے بعد آپ کے کاروبار نے بہت ترقی کی اور کئی دکانیں قائم کیں۔ آپ کو 1941ء میں قبول احمدیت کی توفیق ملی تھی۔ بہت فدائی اور جماعتی کاموں میں شوق سے حصہ لینے والے تھے۔ اپنی وفات سے ایک ہفتہ قبل مسجد احمدیہ کی محراب میں بغیر کسی تحریک کے ازخود پنکھا لگوادیا۔
12؍مئی 1968ء کو آپ بعارضہ قلب بیمار ہوئے اور 16؍مئی کو وفات پاگئے۔ مرحوم موصی تھے اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں