ڈاکٹر عبدالسلام۔ چند یادیں

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مئی و جون 2022ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

1959ء کے اوائل میں جب خاکسار لندن پہنچا توان دنوں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب پٹنی کے علاقہ میں مقیم تھے اور امپیریل کالج آف سائنس میں پروفیسر تھے۔ آپ مسجد جب بھی تشریف لاتے تو خاکسار کو بھی آپ سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب اپنے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے بہت بلند تھے اور خاکسار ایک نوجوان مبلغ تھا۔ اکثر اتوار کو ناشتہ پرمحترم حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ اور اپنے دوستوں کو بلاتے تھے۔ ناشتہ کیاہوتا تھا پُر تکلّف کھانا ہوتا تھا۔ ان مواقع پر خاکسار کو بھی دعوت دیتے تھے۔ خاکسار اور ان کے دوسرے مداح ان کی علمی گفتگو سے مستفید ہوتے تھے۔ اس موقع پر شعر و شاعری اور ادبی گفتگو بھی ہوتی تھی، حالات حاضرہ پر تبصرہ بھی ہوتا تھا۔ڈاکٹر صاحب ان محفلوں کے روح رواں ہوتے تھے۔ بعد میں جب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ مستقلاً لندن میں رہائش پذیر ہوگئے تو ناشتہ پر اتوار کے دن جب ڈاکٹر صاحب ان کو دعوت دیتے توخاکسار کو بھی بالخصوص یاد فرماتے تھے۔

ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے سائنس کے لیے ایک خاص دماغ تو عطاکیا ہی تھا لیکن آپ کو اردو فارسی شعر و شاعری میں بھی کافی دلچسپی تھی۔ فارسی کے مشہور شاعر حافظؔ سے آپ کو بے حد لگاؤ تھااور اس کے درجنوں اشعار زبانی یاد تھے اور موقع کی مناسبت سے اس کے اشعار سنایابھی کرتے تھے۔مولانا روم سے بھی آپ کو عشق تھا۔ ان کے بھی درجنوں اشعار زبانی یاد تھے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے اشعار بھی موقع کی مناسبت سے سنایا کرتے تھے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓسے بے حد محبت تھی۔اکثر اپنے ذاتی معاملات میں ان سے مشورہ حاصل کرتے تھے اور حضرت چوہدری صاحبؓ جو بھی مشورہ دیتے اس پر عمل پیرا ہو جاتے تھے۔
خاکسار کے لندن آنے کے کچھ عرصہ بعد محترم ڈاکٹر صاحب کے والد حضرت چوہدری محمد حسین صاحب بھی لندن تشریف لے آئے۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے والد کے ساتھ عشق تھا اور ان کا بے حد خیال رکھتے تھے۔جو بھی بڑے بڑے سیاستدان اور سائنسدان ڈاکٹر صاحب سے ملنے آتے انہیں اپنے والد صاحب سے ضرور ملاتے تھے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب کی ملاقات ڈیوک آف ایڈنبرا سے طے ہوئی تو وہاں بھی اپنے والد صاحب کو ساتھ لے گئے اور انہیں ڈیوک سے ملایا۔
ایک دن ڈاکٹر صاحب خاکسارکے پاس مشن ہاؤس تشریف لائے تو فرمایا کہ ان کے والد صاحب گھر میں بیٹھے بیٹھے اکتاجاتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ اپنے والدصاحب کو صبح مشن ہاؤس میں میرے پاس چھوڑ جایاکریں اور شام کو کالج سے واپس آتے ہوئے لے جایاکریں۔ اس طرح اُن کادل لگا رہے گا، احمدی دوستوں سے ملاقات بھی ہوگی۔ خاکسار نے عرض کیا کہ اُن کے والد صاحب کا مشن آنا میرے لیے خوشی کاباعث ہوگا اور اس طرح جماعت کی تربیت کے سلسلہ میں ہم ان سے فائدہ بھی اٹھالیں گے۔ چنانچہ جناب چوہدری محمد حسین صاحب روزانہ مشن ہائوس میں تشریف لانے لگے اور اکثر میرے دفتر میں میرے ساتھ بیٹھ کر علمی و تربیتی امور پر گفتگو رہتی۔ ایک روز انہوں نے مجھے کہا کہ دعا کرو سلام کو نوبل پرائز مل جائے۔ مَیں نے عرض کیاآپ خود بزرگ ہیں۔ آپ کی دعائیں میری نسبت زیادہ مقبول ہیں۔ان شاء اللہ میں بھی دعا کروں گا اور چند اَور بزرگوں کو بھی دعا کے لیے کہہ دوں گا۔ کچھ عرصہ بعد مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ڈاکٹر سلام کو نوبل پرائز ضرور ملے گا لیکن ابھی ان کی عمر چھوٹی ہے جبکہ بڑی عمرکے سائنسدانوں کی قطار لگی ہوئی ہے، پہلے انہیں یہ پرائز دیاجائے گا اور پھر بار ی آنے پر ڈاکٹر سلام کو بھی ملے گا۔ مَیں نے اگلے دن مکرم چوہدری محمد حسین صاحب کو اپنی یہ خواب سنائی۔ دوسرے دن جب محترم ڈاکٹر عبد السلام صاحب اپنے والد کو لینے مشن آئے تو مجھ سے میری خواب کے سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خاکسار نے انہیں خواب سنائی تو فرمانے لگے: عجیب بات ہے ابھی چند روز ہوئے مجھے یہی بات نوبل پرائز کمیٹی کے ایک قریبی شخص نے بھی بتائی ہے۔
ڈاکٹر صاحب جمعہ کے روز اوّل وقت میں مسجد تشریف لاتے اور عمومًا پہلی صف میں امام کے عین پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ خاکسار خطبہ دیتا تو دورانِ خطبہ ڈاکٹر صاحب اپنی نوٹ بک نکال کر اس میں کچھ درج کرتے رہتے تھے۔ ایک دن مَیں نے بطور لطیفہ ان سے کہا: ڈاکٹر صاحب! آپ کو شاید میراخطبہ بہت پسند آتا ہے کیونکہ آپ وقتاً فوقتاً اس سے نوٹس لیتے رہتے ہیں۔اس پر ڈاکٹر صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے اور فرمانے لگے: ’بات یہ ہے کہ میرے دماغ میں وقتاً فوقتاً بجلی کی تیز روشنی کی مانند بعض سائنسی نکات آتے ہیں، مَیں انہیں بروقت نوٹ کرلیتا ہوں۔ بعد میں یہ نکات میری تحقیق کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں۔ اگر میں انہیں بروقت نوٹ نہ کروں تو ان اہم مضامین کے ضائع ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔‘ ڈاکٹر صاحب کا یہ طریق دن رات جاری رہتا تھا، حتیٰ کہ کھانے کی میز پر بھی اچانک وہ اپنی نوٹ بک کھول کر اس میں لکھنا شروع کر دیتے تھے اور پھر گفتگو میں شامل ہو جاتے تھے۔

محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

ڈاکٹر صاحب کو احمدیت سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ جماعت کے لیے بہت غیرت رکھتے تھے۔ 1974ء میں جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی قرارداد پاس کی تو ان دنوں ڈاکٹر صاحب صدر پاکستان کے سائنسی مشیر تھے اور ان کا درجہ وزیر کے برابر تھا۔ جب اس فیصلہ کی خبر سنی تو مشن ہائوس تشریف لائے۔ حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحبؓ بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جیب سے اپنا استعفیٰ نکال کر حضرت چوہدری صاحبؓ کو دکھایا اورفرمایا کہ میں اس حکومت کے ساتھ کیسے رہ سکتا ہوں جس نے سراسر ظلم اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ایک شرمناک فیصلہ کیا ہے۔ پھر جنرل ضیاء نے جب اپنا رسوائے زمانہ آرڈیننس جاری کیا جس میں جماعت کواسلامی شعائر کے استعمال سے روکاگیا تو ڈاکٹر صاحب کو بہت صدمہ پہنچا۔ کچھ عرصہ کے بعدایک مرتبہ مَیں اُن کی خدمت میںحاضرہوا تومَیں نے دریافت کیاکہ کیا آرڈیننس کے اجراء کے بعد اُن کی ضیاء الحق سے ملاقات ہوئی ہے؟ توڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہاں ایک ملاقات ہوئی ہے اور اس ملاقات کی رو داد یوں سنائی۔ آپ نے فرمایا:
’’جنرل صاحب کے مجھے ٹریسٹ میں کئی فون آئے کہ میں پاکستان آکر اُن سے ملوں لیکن مَیں ٹالتا رہا۔ بالآخر مجھے پاکستان جاناپڑ گیا۔ جنرل صاحب کو اطلاع ہوئی تو ملاقات کے لیے بلایا۔ چنانچہ مَیں پریذیڈنٹ ہاؤس گیا۔جنرل صاحب نے خودباہر آکر میری کار کادروازہ کھولا اور مجھ سے معانقہ کرنے کے بعد اپنے ساتھ بیٹھنے کے کمرہ میں لے گئے جہاں بعض اَور سائنس دان بھی موجود تھے۔ دوران گفتگو میں نے آرڈیننس کا ذکر کرکے اس پر افسوس کااظہار کیا۔ جنرل صاحب نے فوراً میراہاتھ پکڑا اور کہا آیئے دوسرے کمرے میں چل کر بات کرتے ہیں۔ اورمجھے وہ دوسرے کمرہ میں لے گئے، اس وقت کے سائنسی امور کے وزیر بھی ہمارے ساتھ اس کمرے میں چلے آئے۔ جنرل ضیاء نے کہا: بات یہ ہے کہ میرے پاس علماء کا ایک وفد آیا تھا۔ انہوں نے مجھے یہ افسوسناک بات بتائی کہ احمدی قرآن کریم میں تحریف کرتے ہیں اس لیے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ میں نے جنرل صاحب کو کہا کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ تو خود قرآن مجید میں موجود ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا ہے کہ قرآن مجید کی حفاظت مَیں خود کروں گا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے بعداحمدی کیسے قرآن کریم میں تحریف کرسکتے ہیں؟ اس پرجنرل صاحب اُٹھ کر کتابوں کی الماری کی طرف گئے اور تفسیر صغیر اٹھا لائے۔ یہ قرآن کریم کا بامحاورہ اردو ترجمہ ہے جو حضرت مصلح موعود ؓ نے کیا ہے۔ جنرل صاحب نے کہاکہ علماء نے ان آیات کی نشاندہی کردی ہے جن میں جماعت احمدیہ نے تحریف کی ہے ،وہ مَیں آپ کو دکھاتاہوں۔ انہوں نے تفسیر صغیر کو کھولا اور ایک نشان زدہ صفحہ کھول کر ایک نشان زدہ آیت پر انگلی رکھ کر کہا کہ دیکھیے اس آیت میں آپ لوگوں نے تحریف کی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل صاحب! یہ آیت تومکمل طور پر درج ہے۔ تحریف کہاں ہوئی ہے؟ جنرل صاحب نے کہاکہ دیکھیے آپ نے اس آیت کے معنوں میں تحریف کی ہے اور خاتم النبیین کے معنے بجائے نبیوں کو ختم کرنے والے کے، نبیوں کی مہر کے کیے ہیں۔ اور یہ بات ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ’’ختم‘‘ کالفظ جو یہاں استعمال ہواہے وہ پنجابی زبان کا ’’ختم‘‘ تونہیں بلکہ عربی کالفظ ہے اور اس کے معنی عربی زبان میں ’’مُہر‘‘ کے ہیں۔لیکن میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ کیا آپ کے پاس اَور کسی عالم کا ترجمہ قرآن بھی ہے؟ جنرل صاحب اُٹھے اورعلامہ اسد کا ترجمہ قرآن اٹھا لائے جومکہ معظمہ سے شائع ہوا تھا۔ میں نے قرآن مجید کھولا۔ آیت خاتم النبیین نکالی تو وہاں بھی ترجمہ Seal of Prophetsدرج تھا۔ جرنیل کامنہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ مَیں نے کہا: جنرل صاحب! علامہ اسد تو احمدی نہ تھے، پھر یہ ترجمہ تو سعودی حکومت کا شائع کردہ ہے کیا آپ سعودی حکومت کو بھی تحریف کامجرم قرار دیں گے؟ اس پر وہ کہنے لگے: بھئی میں تو ایک اَن پڑھ جرنیل ہوں، مجھے تو جو کچھ ان علماء نے بتایا میں نے اسے سچ سمجھ کر تسلیم کرلیا۔
مَیں نے عرض کیا کہ آپ صرف ایک جرنیل ہی نہیں، اس ملک کے صدر بھی ہیں اور بحیثیت صدرمملکت تمام رعایا کے حقوق کی حفاظت آپ کے فرائض میں شامل ہے۔ یہیں اسلام آباد میں جماعت احمدیہ کے مربی موجود ہیں، جماعت کے افراد موجود ہیں، آپ کو جو کچھ علماء نے بتایا تھا آپ کافرض تھا کہ احمدی علماء کو بھی بلاکراپنی تسلی کراتے اور پھر دونوںطرف کو سننے کے بعد فیصلہ کرتے۔
اس پرجرنیل صاحب نے زور سے کلمہ شہادت پڑھا اور مجھے بھی کلمہ شہادت پڑھنے کو کہا۔ مَیں نے اۡونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا تو فرمانے لگے: سلام! خداکی قسم! مَیں آپ کو اپنے سے اچھا مسلمان سمجھتا ہوں لیکن کیا کروں، مَیں علماء سے مجبور ہوگیاہوں۔ اوریہ کہہ کر بات کارُخ کسی اَور طرف موڑلیا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کو پاکستان سے شدید محبت تھی۔ مَیں نے جب برٹش پاسپورٹ حاصل کیا توایک دن ناشتہ کی میز پر میں نے ان سے عرض کیاکہ وہ بھی برٹش شہریت لے کر برٹش پاسپورٹ بنوا لیں، اس سے انہیں سفر میں بھی بہت سہولت ہوجائے گی۔ اور مَیں نے یہ بھی عرض کیاکہ میں برٹش پاسپورٹ کے حصول کے سلسلہ میں ضروری کاغذات اگلی دفعہ لے آئوں گا۔ ڈاکٹر صاحب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا: امام صاحب! میں ہرگز پاکستانی قومیت نہیں چھوڑوں گا۔ مجھے امید ہے کہ مجھے جلد نوبل پرائز مل جائے گا اور مَیں نہیں چاہتا کہ میرا یہ اعزاز پاکستان کے سواکسی اور ملک کے کھاتے میں چلا جائے۔ میں پاکستانی ہوں پاکستانی رہوں گا ، خواہ مجھے اس کی وجہ سے سفرمیں کسی قدر پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب زندگی بھر پاکستانی رہے اور ان کی وفات بھی ایسی حالت میں ہوئی کہ وہ پاکستانی شہری تھے۔
اپنے والدین سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو عشق کی حد تک محبت تھی۔ جب اُن کے والد صاحب کی وفات ہوئی توڈاکٹر صاحب غم سے نڈھال ہوگئے اور لندن میں اپنے گھر میں گویا مقید ہوگئے۔ کچھ دنوں بعد مجھے مسز سلام کافون آیا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب بہت ہی زیادہ غم زدہ ہیں اور کسی کام میں بھی اُن کا دل نہیں لگتا۔ آپ حضرت چوہدری صاحبؓ کو کہیں کہ آکر انہیں تسلی دیں۔ میں نے حضرت چوہدری صاحبؓ کو یہ ساری بات بتائی اور ہم دونوں ڈاکٹر صاحب کو ملنے ان کے گھر گئے۔ ڈاکٹر صاحب کاغم سے بُرا حال تھا۔حضرت چوہدری صاحبؓ نے انہیں نصیحت کی اور فرمایا کہ اس قدر غم بھی بعض اوقات شرک کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اپنی مثال دی کہ اپنی والدہ صاحبہ سے عشق کی حد تک محبت ہونے کے باوجود ان کی وفات پر صبر اختیارکیااور اللہ کی رضا پر راضی ہوگیا۔ بہت دیر تک نصیحت فرماتے رہے، پھر اٹھ کر ڈاکٹر صاحب کو گلے سے لگایا۔ ڈاکٹر صاحب خوب روئے اوریوں ان کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے والدین اولیاء اللہ میں سے تھے، صاحب رؤیا و کشوف تھے، عبادت گذار تھے، مخلوق خدا سے محبت کرنے والے اور غریبوں کے کام آنے والے تھے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ مسز سلام صاحبہ لمبے عرصہ تک لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی صدر رہیں۔ خاکسار کو بحیثیت امام مسجد فضل لندن اور مبلغ انچارج برطانیہ ان کا بے حد تعاون حاصل رہا۔ مسز سلام ایک طرف خدمت سلسلہ میں لگی رہتی تھیں تودوسری طرف ڈاکٹر صاحب کے مہمانوں کی خاطر داری اور مہمان نوازی میں کسی قسم کی کمی نہ آنے دیتی تھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں