ڈاکٹر محمد شفیع صاحب آف سادھوکی

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مئی 2007ء میں مکرم محمد رفیع جنجوعہ صاحب نے اپنے بڑے بھائی محترم محمد شفیع صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم محمد شفیع صاحب نے مروّجہ تعلیم کے بعد حضرت حکیم قطب الدین صاحبؓ کے پاس قادیان جاکر طب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر طبیہ کالج لاہور میں داخل ہوکر سند حاصل کی اور پھر واپس گھر آ کر پریکٹس شروع کر دی۔ اسی اثناء میں آپ کے بڑے بھائی محترم ماسٹر نذیر احمد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ میرا چھوٹا بھائی حکیم حاذق کرکے گھر آ گیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ کسی بڑے قصبہ میں انسانیت کی خدمت کرے۔ جواب آیا کہ حضور نے موضع مہے چٹھہ کی جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ کے بھائی کو مستقل واقف زندگی کے طور پر مقرر فرمایا ہے۔ اس پر بھائی محمد شفیع صاحب نے حضورؓ کے حکم پر لبیک کہا۔
موضع مہے چٹھہ کے واحد مالک تین بھائی تھے اور پوراگاؤں ان کے مزارع کے طور پر کام کرتا تھا۔ گاؤں کی مسجد بھی اُن کی ہی ملکیت تھی جہاں باری باری نمازوں کی ادائیگی میں دشواری تھی۔ چنانچہ محترم محمد شفیع صاحب نے چھوٹی سی کچی مسجد تعمیر کرائی اور نمازوں اور جمعہ وغیرہ کی ابتدا کر دی۔ اپنوں اور غیروں کے بچے قرآن مجید پڑھنے کے لئے احمدیہ مسجد میں آنے لگے۔ یہ گاؤں بہت دُور افتادہ تھا، کوئی سڑک، حکیم قریب نہ تھا چنانچہ آپ کی حکمت بھی خوب چمکی۔ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ میں شفا بھی رکھ دی اور پورے علاقہ میں ڈاکٹر محمد شفیع کے نام سے معروف ہوگئے۔
آپ نے جماعتی نظام قائم کرکے چندوں کی وصولی کا آغاز کیا۔ خود وصیت کی اور دوسرے دوستوں سے کروائی۔ صدر جماعت کا تقرر کروایا۔
1947ء میں پاکستان بن گیا تو حضورؓ سے اجازت لے کر ڈاکٹر صاحب سادھوکی چلے آئے اور یہاں چار پانچ مہاجر احمدیوں کو سیٹ کرا کر جماعت کی بنیاد رکھ دی۔ مزید احمدی فیملیوں کو لاہور سے منگوا کر قریبی دیہات میں بھی آباد کرا دیا۔ تاہم سادھوکی اس علاقہ کے احمدیوں کا مرکز بن گیا۔
خداتعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ پہلا بیٹا M.A.، دوسرا L.L.B.، تیسرا انجینئر، چوتھا M.B.B.S، اور پانچواں M.A. کرکے لیکچرار لگ گیا۔ پھر ایک بیٹے کے سوا باقی کینیڈا چلے آئے۔ اور سب خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شفیع صاحب کی مخالفت بھی خوب ہوئی۔ 1953ء میں نصف رات کو ننگے سر اور ننگے پاؤں دو بچوں کو لے کر جان بچاکر بھاگنا پڑا۔ گاؤں والوں کے پیغام آتے کہ آپ احمدیت سے وقتی طور پر لاتعلقی کا اعلان کر دیں اور واپس آجائیں۔ لیکن یہ خاندان تین ماہ تک مختلف جگہوں پر رہ کر حالات درست ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ اسی طرح 1974ء میں مخالفین نے آپ کے گھر کو آگ لگا دی مگر ہمسایوں نے جلد ہی آگ پر قابو پا لیا۔ مکان کا زیادہ نقصان نہ ہوا۔ لیکن آپ کو اس دفعہ بھی کچھ عرصہ کے لئے ہجرت کرنا پڑی۔
گو آپ واقف زندگی نہ تھے مگر تمام زندگی خدمت دین میں وقف ہی رہی۔ جماعت سادھوکی کے تاحیات صدر رہے، امیر حلقہ بھی مقرر ہوئے۔ 20؍جنوری 1998ء کو آپ نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آسودہ خاک ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں