ڈپریشن اور اس کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں

ڈپریشن اور اس کا علاج – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

ڈپریشن کا مرض دنیابھر میں‌ایک وبا کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے- اس حوالہ چند تحقیقی رپورٹس ملاحظہ فرمائیں جن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ڈپریشن کا ایک قدرتی علاج ہے-
برطانیہ میں شائع کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ انسانی زندگی میں ڈپریشن بعض دیگر پرانی بیماریوں سے بھی زیادہ خطرناک کردار ادا کرسکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں مکمل کی جانے والی اس تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے پہنچنے والا نقصان آرتھرائٹس ، انجائنا، دمہ اور ذیابیطس سے بھی بڑھ کر پایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد اگر ڈپریشن کے مریض بھی بن جائیں تو اُن کی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے۔ اس تحقیق کے دوران یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ پانچ بیماریوں میں مبتلا افراد اپنی روزمرہ زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ اُن افراد سے اُن کی نقل و حرکت، اشیائ کو مخصوص فاصلے سے دیکھنے کی صلاحیت اور معلومات یاد رکھنے سے متعلق سوالات کئے گئے۔ اس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ ڈپریشن کے مریضوں کی حالت دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ یہ تحقیق دنیا کے ساٹھ ممالک میں دو لاکھ چالیس ہزار افراد پر کی گئی۔ اس تحقیق کے بنیادی نتائج میں کہا گیا ہے کہ ڈپریشن کے مریض میں دیگر بیماریوں کے علاج سے زیادہ اہم ڈپریشن کا علاج ہے کیونکہ ڈپریشن کی موجودگی کی صورت میں دیگر بیماریوں کے شدید ہونے کا خطرہ نسبتاً زیادہ رہتا ہے۔
دوسری طرف امریکہ میں ڈاکٹروں اور والدین کو امریکی حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی اس وارننگ نے پریشان کردیا ہے کہ ڈپریشن سے بچاؤ کی ادویات کے استعمال سے نوجوانوں میں خودکُشی کے خیالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں امراض سے بچاؤ سے متعلق مرکز کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں امریکی ماہرین نفسیات نے خبردار کیا ہے کہ امریکی بچوں اور نوجوانوں میں خودکُشی میں سالانہ شرح میں اضافے کے بعد اس وارننگ کو جاری کیا گیا ہے کیونکہ 2004ء سے نوجوانوں میں خودکشیوں کی شرح میں آٹھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ شکاگو کی ایک یونیورسٹی کے ڈاکٹر لوئس کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے خاتمے کی بیشتر ادویات پرائمری کیئر فزیشن تجویز کرتے ہیں اور اس وارننگ سے وہ بھی شدید متأثر ہوئے ہیں، جن میں سے متعدد نے ان ادویات کو تجویز نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پریشانی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ڈپریشن کی بیماری بھی خودکشی کا بڑا سبب ہے جس کی وجہ سے دس سے چوبیس سال کی عمر کے کئی افراد موت کو گلے لگالیتے ہیں۔
امریکی ماہرین نفسیات نے کہا ہے کہ روحانی پاکیزگی اور مذہب کی طرف رجحان کا مردوں اور خواتین کی دماغی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اور روحانی پاکیزگی اور عبادت میں زیادہ وقت گزارنے والے دماغی طور پر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں۔ حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے مردوں اور خواتین پر مشتمل 718 بالغ افراد کے ایک گروپ کا تحقیقی مطالعاتی جائزہ لیا جن میں سے اکثر نے بچپن کے مقابلے میں بلوغت تک پہنچنے کے بعد اپنی مذہبی و روحانی سرگرمیوں کو کافی حد تک تبدیل کرلیا تھا۔ ماہرین نے ان افراد سے کئے گئے سروے اور دیئے گئے سوالناموں کے جوابات کی روشنی میں اخذ کیا کہ ایسی خواتین جنہوں نے عبادت وغیرہ چھوڑ دی تھی، اُن میں عبادت کرنے والی خواتین کی نسبت افسردگی اور ڈپریشن لاحَق ہونے کا امکان تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔
٭ لندن میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن سے متأثرہ افراد کو یادداشت ختم کردینے والی بیماری الزائمر لاحق ہونے کے خطرات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس کے لاحق ہونے کے نتیجے میں متأثرہ فرد بہت آہستگی کے ساتھ اپنی یادداشت کھو دیتا ہے اور بیماری کی شدّت کی صورت میں مریض کا اعصابی نظام بھی متأثر ہوتا ہے۔ الزائمر کی علامات میں کوئی بات بالکل بھول جانا، بلاوجہ ہیجان میں مبتلا ہونا، انتہائی کنفیوژن کا شکار ہونے کے ساتھ ایک دَم خوش اور کچھ ہی دیر میں دفعۃً ناراض ہوجانا شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے اپنی اس تحقیق میں ساٹھ سے نوّے سال کی درمیانی عمر کے ایسے 503؍افراد کو منتخب کیا جو ڈی منشیا کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے لیکن اُن میں سے 88 ؍افراد ڈپریشن میں مبتلا رہے تھے جبکہ 46 افراد کو بعد میں ڈپریشن کا مرض لاحق رہا۔ چھ سال کے مطالعے کے دوران اُن میں سے 33؍افراد الزائمر کی بیماری میں مبتلا ہوگئے جس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اوائل عمر میں ڈپریشن کا شکار رہنے والوں میں الزائمر لاحق ہونے کا خطرہ تین گنا جبکہ ادھیڑ عمری میں ڈپریشن کا شکار ہونے والوں میں یہ خطرہ اڑہائی گنا زیادہ ہوتا ہے
٭ ہالینڈ میں گزشتہ دنوں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کو ایک نفسیاتی جریدے میں شائع کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کے باعث بڑھتی ہوئی عمر میں ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ایمسٹرڈیم کی ایک یونیورسٹی کے ذریعے کی جانے والی اس تحقیق میں 1282؍ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمر 65 سے 95 سال کے درمیان تھی۔ اِن افراد میں سے 26 ؍افراد کو شدید ڈپریشن جبکہ 169؍افراد میں معمولی ڈپریشن کے آثار پائے گئے۔ لیکن یہ بات حیرت انگیز تھی کہ دونوں قسم کے ڈپریشن کے شکار مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح دیگر افراد کی نسبت 14 فیصد کم تھی۔ یہ بھی معلوم کیا گیا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے خصوصاً پیراتھائیرائیڈ گلینڈز کی رطوبتوں کا نظام متأثر ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر پیراتھائیرائیڈ گلینڈز Overactiveہوں تو اُن کا تعلق بھی ڈپریشن سے دکھائی دیتا ہے۔ یہ تحقیق اس لئے اہم ہے کہ آئندہ ڈپریشن کے مریضوں میں وٹامن ڈی کی سطح بہتر بنانے اور پیراتھائیرائیڈ گلینڈز کی رطوبتوں کا نظام درست کرنے سے اُن کی ڈپریشن کی بیماری کا علاج کیا جاسکے گا، خواہ اس مقصد کے لئے خوراک اور کیلشیم کے مرکبات سے کام لیا جائے یا پھر سورج کی براہ راست شعاؤں سے جسم میں وٹامن ڈی پیدا کی جائے۔
٭ ایک اَور رپورٹ میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ نوجوانی میں زیادہ دیر تک ٹیلی ویژن دیکھنے سے ڈپریشن لاحق ہوسکتا ہے۔ اور خاص طور پر لڑکوں میں اس کی شرح لڑکیوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ امریکہ میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران ماہرین نے چودہ سے بائیس سال کی عمر کے 4 ہزار سے زائد صحت مند نوجوانوں کا جائزہ لیا جن میں سے زیادہ تر 6 سے 8 گھنٹے تک میڈیا نشریات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ان نوجوانوں میں ڈپریشن کی شرح میڈیا کے ساتھ وقت گزارنے کے تناسب سے کم یا زیادہ دیکھی گئی جس سے طبی ماہرین نے اندازہ لگایا کہ ٹیلی ویژن ، انٹرنیٹ اور ریڈیو ڈپریشن میں اضافہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس جائزے کے نتائج آرکائیوز آف جنرل سائیکیٹری میں شائع ہوئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن دنیا بھرمیں ایسی معذوری کی ایک بڑی وجہ بن گیا ہے جو جان لیوا نہیں ہوتی ۔ اور جو نوجوان روزانہ اوسطاً ساڑھے آٹھ گھنٹے الیکڑانک میڈیا کے سامنے گزارتے ہیں تو ایسا کرنا بھی اُن میں ڈپریشن پیدا کرنے کی ایک وجہ ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سکول آف میڈیسن کے ڈاکٹر برائن اور اُن کی ٹیم نے یہ مطالعہ کرنے کے بعد معلوم کیا ہے کہ سات سال میں ساڑھے سات فیصد نوجوانوں میں ایسی علامات پیدا ہوچکی تھیں جو ڈپریشن کے مرض جیسی ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نوجوان الیکٹرانک میڈیا پر صرف کیے جانے والے وقت کو دوسری سماجی،تخلیقی یا کھیلوں کی سرگرمیوں پر صرف کریں تو اُن میں ڈپریشن پیدا ہونے کے امکانات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات کے وقت میڈیا کے سامنے وقت گزارنے سے نیند میں خلل پڑسکتا ہے جبکہ رات کی نیند معمول کی فکری اور جذباتی نشوونما کیلئے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
٭ ملائیشین پین اینڈ ڈپریشن ڈے پر میڈیا ورکشاپ میں پیش کی جانے والی ایک طبّی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں مختلف نوعیت کی دردیں ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں۔ جبکہ کیمیائی مادے سیروٹونین کے جسم کے اندر زیادہ اخراج سے بھی جسمانی دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ تحقیق ملائیشیا کے ایک طبّی ادارے کے ماہرین نے کی ہے جن میں مائیکا ٹریک ایسوسی ایشن ملائیشیا کے صدر ڈاکٹر ین ٹیک بھی شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی طبّی پریکٹس میں جسم کی دردوں سے ڈپریشن میں چلے جانے کی وجہ کے بارے میں ہزاروں ڈاکٹر ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ درد کی وجہ سے ڈپریشن ہے، یا ڈپریشن سے دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ ابتدائ میں ڈاکٹر زیادہ تر درد دُور کرنے والی ادویات دیتے ہیں لیکن وقتی افاقے کے بعد وہ ڈپریشن دُور کرنے والی ادویات کی طرف آجاتے ہیں اور بعض اوقات دونوں ادویات اکٹھی بھی شروع کردی جاتی ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہونے لگتی ہے ۔
٭ ایک دوسری رپورٹ میں ماہرین نفسیات نے ڈپریشن اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش میں اہم تعلق پائے جانے کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کامیابیوں، دولت کے حصول اور شہرت پانے کی خواہشات انسان کو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ برٹش جرنل آف کلینیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اس نوعیت کا ڈپریشن مسلسل جاری رہتا ہے کیونکہ ان خواہشات کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا ۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ڈاکٹر جوہن سن اور ڈاکٹر بریکلے نے کہا ہے کہ اس نوعیت کے ذہنی انتشار سے بدمزاجی، تلخ کلامی، لالچ، نیند میں کمی اور جسمانی معذوری لاحق ہوسکتی ہے، نیز مستقبل سے بہت زیادہ توقعات یا کسی فرد سے توقعات کے ٹوٹنے پر جو ناکامی سامنے آتی ہے اس پر شدید رنج اور دکھ کا احساس، دراصل شہرت میں کمی ہونے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 103 افراد کی ذہنی حالت کو زیرنظر رکھا گیا تھا جن میں سے 27 لوگ شدید ڈپریشن میں مبتلا تھے۔ ان افراد میں شہرت کی خواہش سب سے نمایاں تھی اس کے بعد کامیابیوں کی شرح اور پھر دولت کا حصول تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں