کائنات، آغاز سے انجام تک (بِگ بینگ اور بلیک ہول کے نظریات)

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ مئی 2007ء میں مکرم آر، ایس بھٹی صاحب کا کائنات کے آغاز اور انجام سے متعلق ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
کائنات کے آغاز کے بارے میں آج قریباً تمام سائنسدان بگ بینگ تھیوری پر متفق ہیں جسے 1927ء میں Georges Lemaitre نے پیش کیا اور بعد میں ہبل نے اس پر کام کیا۔ اس نظریہ کے مطابق آغاز میں یہ کائنات ایک گولے کی طرح تھی اور پھر اچانک وہ گولہ پھٹا اور یہ کائنات وجود میں آئی۔ اس کائنات میں موجود تمام کہکشائیں یکساں رفتار سے دُور ہٹ رہی ہیں اور ان کے درمیان فاصلہ برقرار رہتا ہے۔ یہ نظریہ آج مضبوط سائنسی شواہد پر قائم ہے۔

ایک ایسے جسم کا تصور جس کی کمیت اتنی زیادہ ہو کہ روشنی بھی اس کی کشش سے باہر نہ نکل سکے، یہ نظریۂ سب سے پہلے ایک انگریز ماہر ارضیات John Michell نے 1783ء میں پیش کیا۔ اُس نے مزید کہا کہ کوئی جسم اتنی طاقتور کشش ثقل اُسی وقت پیدا کر سکتا ہے جب اس میں مادے کی مقدار اور کثافت ناقابل یقین حد تک زیادہ ہو۔ مائیکل نے ان اجسام کو ’’ڈارک سٹارز‘‘ کا نام دیا۔
1796ء میں اس کا یہ نظریہ ایک فرانسیسی ماہر ریاضی اور فلاسفر Pierre Simon Laplace نے اپنی علم فلکیات کی کتاب “Exposition du System du Monde” میں شائع کیا لیکن اس کو اتنا غیر اہم جانا گیا کہ کتاب کے صرف پہلے دو ایڈیشن تک شائع ہوا، جبکہ تیسرے ایڈیشن سے اسے نکال دیا گیا۔ اس کے اس نظریہ کو انیسویں صدی میں کچھ اہمیت حاصل ہونا شروع ہوئی، کیونکہ اس سے پہلے تک روشنی کو ایک بے وزن لہر کے طور پر جانا جاتا تھا جس پر کشش ثقل اثر انداز نہیں ہوتی۔ لیکن جدید طبیعات نے یہ تصور تبدیل کر دیا تھا۔ 1915ء میں آئن سٹائن نے مضبوط نظریاتی بنیادوں پریہ نظریہ پیش کیا کہ کشش ثقل روشنی کا راستہ بھی تبدیل کر سکتی ہے۔ چنانچہ 1916ء میں ایک جرمن آسٹوفزسٹKarl Schwarzchild نے دوبارہ اس نظریہ پر کام شروع کیا اور یہ ثابت کیا کہ ایک ایسا جسم نظریاتی طور پر ممکن ہے جسے ہم آجکل بلیک ہول کے نام سے جانتے ہیں۔
1939ء رابرٹ اوپن ہائیمر اور H. Snyder نے یہ پیشگوئی کی کہ وزنی ستارے gravitational collapse سے گزر سکتے ہیں اور بلیک ہول کا بننا قدرتی طور پر ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے بعدStephen Hawking اور Roger Penrose نے ثابت کیا کہ، بلیک ہول، آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔ بلیک ہول کی اصطلاح ماہر نظریاتی طبیعات John Wheeler نے 1927ء میں ایجاد کی، اس سے پہلے بلیک ہول کے لئے عام طور پر ’’بلیک سٹار‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
بلیک ہول میں بلیک سے مراد یہ ہے کہ اس کی کشش کی قوت سے کوئی بھی چیز باہر نہیں نکل سکتی یہاں تک کہ روشنی بھی نہیں۔ اور ہول کے معنی سوراخ کے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد ہے کہ خلا میں پائی جانے والی ایسی جگہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
بلیک ہول ستاروں یا انتہائی وزنی اجسام سے اس وقت بنتے ہیں جب وہ اپنی ہی کشش سے ایک نقطہ میں سمٹ جائیں۔ اس کے لئے gravitational collapse کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اس سے ایک ایسا جسم وجود میں آتا ہے جس کی کثافت لامحدود ہوتی ہے۔ زیادہ تر ستاروں میں ان کے مرکز میں نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے الیکٹرومیگنیٹک شعاعیں باہر کی طرف دباؤ پیدا کرتی ہیں، یہ دباؤ اندر کی طرف لگنے والی کشش ثقل کے بالکل برابر ہوتا ہے۔ جب ستارے کا نیوکلیئر ایندھن ختم ہونے لگتا ہے تو باہر کی طرف لگنے والی اپنی ہی کشش ثقل کے زیر اثر وہ سکڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ جب ایندھن بالکل ختم ہوجائے تو ستارے کی سطح collapse کر جاتی ہے۔ اگر ستارہ کافی بڑے حجم کا ہو تو وہ بلیک ہول بن جاتا ہے ورنہ وائٹ ڈوارف (White Dwarf) یا نیوٹران سٹار میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایک ستارے کو بلیک ہول میں تبدیل ہونے کے لئے سورج سے پندرہ گنا یا اس سے زیادہ بڑا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے سورج کا ڈائیامیٹر 1,390,000 کلومیٹر ہے۔ لیکن بلیک ہول اسقدر کثیف ہوتا ہے کہ 10 سورج 30 کلومیٹر علاقے میں سکڑ جاتے ہیں۔ بلیک ہول ایک چھوٹے نقطہ کی صورت اختیار کرجاتا ہے اور دکھائی نہیں دیتا اسے singularity کہتے ہیں۔ جب بلیک ہول ایک مرتبہ بننا شروع ہوجائے تو پھر کوئی مادی طاقت اسے روک نہیں سکتی یہ تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے گرد موجود اجسام کو اپنی طرف کھینچنا اور نگلنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ فاصلہ جہاں سے کوئی جسم بلیک ہول کی کشش سے بچ کر نہیں جاسکتا Event Horizon کہلاتا ہے۔
چونکہ ہم بلیک ہولز کو دیکھ نہیں سکتے اس لئے ان کی موجودگی کے ثبوت میں، ہمیں بالواسطہ شواہد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ہر کہکشاں (Galaxy) کے درمیان میں ایک عظیم بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔ کہکشاں کے درمیان میں موجود تاریک اجسام کو بلیک ہول مان لینے کی وجہ یہ ہے کہ ایک پوری گلیکسی کو ایک مرکز کے گرد گھمانے کے لئے جو قوت چاہیے وہ بلیک ہول کی موجودگی کا ثبوت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: کیا انہوں نے دیکھا نہیں جنہوں نے کفر کیا کہ آسمان اور زمین دونوں مضبوطی سے بند تھے پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ الگ کر دیا۔ (الانبیاء:31)
اس آیت کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں رتقاً (مضبوطی سے بند مادہ) اور فتق (پھاڑ کر الگ الگ کر دینا) کے الفاظ تمام آیت کا بنیادی پیغام سمیٹے ہوئے ہیں۔ مستند عربی لغات میں رتقا کے دو معنی ہیں جو کہ زیر بحث موضوع سے انتہائی مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک معنی ہے ’کسی چیز کا اکھٹے ہونا اور نتیجۃً ایک واحد ہستی ہوجانا‘ اور دوسرے معنی ’’مکمل تاریکی‘‘ کے ہیں۔ یہ دونوں معنی واضح طور پر قابل استعمال ہیں۔ ان دونوں کو اکٹھا کرلینے سے بلیک ہول کی (singularity) مکمل طور پر بیان ہوتی ہے۔ ‘‘
دوسرا لفظ’’فتق‘‘ ہے یہ ’’رتقا‘‘ کا متضاد معنی دیتا ہے اس کے لغوی معنی پھاڑنے کے ہوتے ہیں۔ بگ بینگ نظریہ میں کائنات کے آغاز کے جو شواہد ملتے ہیں وہ اسی سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس کے انجام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جیسے دفتر تحریروں کو لپیٹتے ہیں۔ جس طرح ہم نے پہلی تخلیق کا آغاز کیا تھا اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہم پر فرض ہے یقینا ہم یہ کر گزرنے والے ہیں۔ (الانبیاء:105)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک ایک واحد کائناتی بلیک ہول کے تصور کا تعلق ہے اس کی بنیاد بگ بینگ تھیوری ہے جس کو قرآن کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ بعض سائنسدان ایک اوپن کائنات کا تصور پیش کرتے ہیں۔ انہیں یہ یقین ہے کہ کائنات متواتر پھیلتی چلی جائیگی یہاں تک کہ خلائی مادہ نہایت باریک ہو کر منتشر ہوجائیگا اور مرکزی کشش ثقل کے اثر سے نکل جائے گا۔ یہ تصور کائنات کے دوبارہ اکٹھے ہونے اور دوبارہ پیدا ہونے کی نفی کرتا ہے۔ قرآن اس تصور کی قطعی طور پر نفی کر رہا ہے۔ یہ بات صاف، واضح اور قطعی ہے کہ ایک وحدانیت سے کائنات کا آغاز ہوا اور ایک وحدانیت میں ہی یہ دوبارہ ڈوب جائے گی۔ خدا کی وحدانیت اور اسی کا تخلیق کردہ دھماکہ اور پھر دوبارہ تخلیق کی خدا کی وحدانیت میں واپسی اس سے زیادہ اچھے الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی

انّا لِلّہِ وَاِنَّا اِلیہ رَاجِعُون (البقرہ: 157)‘‘

جولائی 2004ء میں سٹیفن ہاکنگ نے اپنے ہی تیس سال پہلے بیان کردہ نظریہ کی تردید کی جس میں اس نے کہا تھا کہ بلیک ہول اپنے اندر گرنے والی ہرشے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ غلط تھا اور شاید یہ ممکن ہے کہ بلیک ہول اپنے اندر موجود بعض معلومات کو کسی وقت میں باہر نکال دیتا ہو۔ اگر اس کا ثبوت مل جائے تو بلیک ہول کے ذریعہ دوبارہ نئی کائنات کی پیدائش کے عمل کی وضاحت بھی ہوجائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں