کچھ ذیابیطس کے بارے میں

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی و اگست 2021ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

1970ء کی بات ہے اچانک مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ شدت پیاس سے میری زبان سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہو جاتی ہے۔ رات کو بھی بار بار پیشاب کے لیے اٹھنا پڑتا تھا۔ ان علامات کا ذکر ایک دن میں نے حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ سے کر دیا۔آپؓ نے فرمایا کہ فوراً اپنے ڈاکٹر کو ملو اور ان سے ان علامات کا تذکرہ کرو،تا جو بھی بیماری ہو بروقت پتہ چلنے سے اس کا مداوا کیا جا سکے۔ میں اپنے ڈاکٹر کو ملا۔انہوں نے مجھے ہسپتال میں مزید ٹیسٹوں کے لیے بلایا۔جہاں میرے متعدد ٹیسٹ ہوئے، خون، پیشاب وغیرہ کا معائنہ ہوا۔گلوکوز پلا کر ٹیسٹ لیے گئے اور دو دن کے بعد اسپشیلسٹ سے ملنے کو کہا گیا۔ اُس نے بتایا کہ ٹیسٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ تمہیں ذیابیطس کی تکلیف لاحق ہو گئی ہے۔جونہی ڈاکٹر نے مجھے یہ بتایا مجھے یہ محسوس ہوا کہ مجھے سزائے موت سنائی گئی ہے۔ کچھ لمحات کے لیے تو میں بالکل سکتہ میں چلا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تسلی آمیز کلمات میں بتایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔مناسب پرہیز اور روزانہ ورزش سے یہ مرض قابو میں آ سکتا ہے اور پھر تفصیلی ہدایات دیں۔
مَیں گھر لَوٹا تو حضرت چودھری صاحبؓ کو اپنا منتظر پایا۔فرمانے لگے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیاچودھری صاحبؓ! ایک خوشی کی خبر ہے اور ایک غم کی۔ پہلے کون سی سناؤں۔ فرمانے لگے جو چاہو پہلے سنا دو۔میں نے کہا کہ خوشی کی خبر تو یہ ہے کہ مَیں آپ کا ’ہم قارُورہ‘ ہو گیا ہوںاور اب ہم دونوں کے پیشاب میں شکر کی آمیزش ہے۔ اور غم کی خبر یہ ہے کہ مجھے ذیابیطس کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا؛ اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے مجھے تو پچھلے چالیس سال سے یہ عارضہ لاحق ہے۔
پھر فرمایا: ذیابیطس کی مثال ایک سرکش گھوڑے کی سی ہے۔ اگر سوار ہوشیار اور محتاط ہو تو سرکش گھوڑے کی سواری سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اگر سوار چوکس نہ ہو تو گھوڑا اسے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ اسی طرح ذیابیطس اگر کنٹرول میں رہے تو زندگی کے اطوار میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا وگرنہ یہ مرض بہت خطر ناک نتائج بھی پیدا کر سکتا ہے۔ پھر فرمایا: دیکھو اس مرض سے خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو نقصان دہ ہے اور خون سارے جسم میں گردش کرتا ہے۔ اس لیے یہ بیماری بھی جسم کے تمام اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ذیابیطس کے نتیجہ میں بینائی کا ضائع ہونا، دانتوں کا ضائع ہو جانا، دل کا کمزور ہو جانا وغیرہ عام دیکھنے میں آیا ہے۔
پھر فرمایا: ذیابیطس کو قابو میں رکھنے کے لیے تین باتوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ اوّل وقتاً فوقتاً ڈاکٹری مشورہ لو اوراس پر سختی سے عمل کرو۔ دوم روزانہ ورزش مثلاً دو اڑھائی میل تیز قدم سے چلنا۔ سوم غذا میں احتیاط اور ان چیزوں سے کلیۃً پرہیز جن سے ڈاکٹر نے روکا ہو۔ فرمانے لگے میں ڈاکٹر Joslinسے جو امریکہ میں ذیابیطس کے چوٹی کے معالج تھے وقتاً فوقتاً معائنہ کرواتا رہتا تھا اور ان کی ہدایات پر پوری طرح عمل کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب میں انہیں ملنے گیا اور انہوں نے میرا تفصیلی معائنہ کیااور اس بات پر اطمینان کا اظہا ر کیا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ ظفر اللہ خان! تمہیں بعض باتوں سے حتی الوسع پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً کافی کا زیادہ استعمال نہ کریں۔میں نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ میں روزانہ گیارہ بڑی پیالیاں کافی کی پیتا ہوں اور کسی حد تک کافی سے Addicted ہوں لیکن آج کے بعد میں اسے کلیۃً ترک کر دوں گا۔ ڈاکٹر جوسلین نے کہا کہ اس طرح اچانک کلیۃً ترک کرنا تو آپ کے لیے ممکن نہ ہوگا ،اس لیے آپ اسے کچھ کم کردیں۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ جب میں ان کی سیڑھیوں سے نیچے اترا تو فیصلہ کر چکا تھا کہ اب میں کافی کو ہاتھ نہ لگاؤں گااور اب پندرہ بیس برس ہو چکے ہیں میں نے کافی کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔
حضرت چودھری صاحبؓ تفصیل سے ہدایات دے چکے تو میں نے عرض کیا کہ آپ کی طرح کا ڈسپلن شاید مَیں نہ کر سکوں۔ اس پر انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ فرمایا ایک دن، جبکہ مَیں وزیر خارجہ پاکستان تھا، مجھے اچانک پرائم منسٹر ہاؤس سے فون آیا کہ خواجہ ناظم الدین صاحب (وزیراعظم ) نے یاد کیا ہے۔ میں فوراً تیار ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اپنی اسٹڈی میں بیٹھے ہوئے تھے۔مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور فرمانے لگے کہ ڈاکٹروں نے میرا معائنہ کیا ہے اور انہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ مجھے ذیابیطس کی بیماری کا آغاز ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ تمہیں تکلیف دوں اور تم سے درخواست کروں کہ اس بیماری پر جیسے آپ نے کنٹرول کیا ہے اس کے بارے میں مجھے بھی ہدایات دیں اور معلومات بہم پہنچائیں۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ میں نے تقریباً پونہ گھنٹہ لگا کر تفصیل سے انہیں بتایا کہ انہیں خوراک میں کیا کیا احتیاط کرنا ہوگی اور کون کو نسی چیزیں ایسی ہیں جن کے کھانے سے انہیں مکمل پرہیز کرنا ہوگا۔ اس دوران جناب خواجہ صاحب بالکل خاموش رہے اور بڑی توجہ سے میری باتیں سنتے رہے۔ میں نے جب بات مکمل کر لی تو فرمانے لگے چودھری صاحب! آپ نے جو ہدایات دی ہیں انہیں ہم نے پوری توجہ اور خاموشی سے سنا ہے اور ہم اس کے لیے آپ کے بہت ممنون ہیں لیکن یہ سب کچھ ہم سے نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے لیے اپنے کھانے پینے میں اتنی بڑی تبدیلی لانی ممکن نہ ہوگی۔ حضرت چودھری صاحبؓ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ تم نے بھی وہی خواجہ صاحب والی بات کہی ہے۔ نصائح تو دلجمعی سے سن لی ہیں لیکن کہہ دیا کہ عمل مجھ سے نہ ہو سکے گا۔

ایک دلچسپ بات حضرت چودھری صاحبؓ نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ حلال اور طیب اشیاء کھایا کرو۔ حلال تو واضح ہے پھر یہ طیب کیا ہے؟ فرمانے لگے: طیب سے مراد یہ ہے کہ مثلاً چینی حلال ہے مگر ذیابیطس والے مریض کے لیے یہ طیب نہیں ہے۔ اس کے مدّ نظرقرآن حکیم نے، جو عظیم حکمتوں کی کتاب ہے، فرمایا کہ حلال تو سبھی کھا سکتے ہیں لیکن حلال میں بعض اشیاء طیب نہ ہوں گی اور جن کے لیے وہ طیب نہ ہوں وہ ان سے پرہیز کریں۔
ذیابیطس کے مریض جو پوری طرح ڈاکٹری ہدایات پر عمل کرتے ہیں عموماً لمبی عمریں پاتے ہیں کیونکہ ان کی غذا بہت متوازن (Balanced) ہوتی ہے۔خود حضرت چودھری صاحبؓ نے 93سال کی لمبی عمر پائی ہے اور ان کی اس لمبی زندگی کا راز اسی میں تھا کہ وہ کھانے پینے میں بہت محتاط تھے۔ یوں بھی زیادہ کھانا صحت کے لیے مضر ہے اور موٹاپا تو خود ایک بیماری ہے۔ پھر صبح کی سیر ذیابیطس کے لیے بے حد مفید ہے۔دو میل بھی اگر روزانہ تیز چلا جائے تو اس کے بے حد مفید نتائج برآمدہوتے ہیں۔مجھے ہومیو پیتھی کے اس نسخہ سے بہت فائد ہوا ہے:نیٹرم سلف 200ہفتہ میں ایک بار، نیٹرم سلف30طاقت کی دن میں دو بار۔اس کے ساتھ کالی فاس کا استعمال بھی مفید ہے۔کھانے میں بیسن کی روٹی کا استعمال مفید ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں